اپنے قیام کے پہلے روز سے لے کر آج تک پاکستان کو جیسے جیسے امتحانوں ¾ جیسے جیسے طوفانوں اور جیسے جیسے بحرانوں سے گزرنا پڑا ہے انہیں اگر سامنے رکھاجائے تو اس نتیجے پر پہنچنے کے لئے افلاطونی ذہانت درکار نہیں ہوگی کہ اس ملک کا قائم رہنا اور دنیا کے نقشے پر بے پناہ اہمیت کا مقام رکھنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ یہ وہ کشتی ہے جس میں ہمارے حکمران طبقے خود روزِ اول سے چھید ڈالتے چلے آرہے ہیں۔ اگر اس کے باوجود یہ کشتی نہیں ڈوبی تو صرف اس وجہ سے نہیں ڈوبی کہ قدرت کو یہ منظور نہیں تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو نادرست نہیں ہوگا کہ اس ملک کے قیام کا فیصلہ آسمانوں میں ہوا تھا اور یہ فیصلہ بھی آسمانوں میں ہوا تھا کہ یہ ملک اپنی تقدیر میںلکھے گئے مقصد کی تکمیل کے لئے ہر امتحان ¾ ہر طوفان اور ہر بحران سے بخیر و عافیت گزر جائے ۔
اس ضمن میں کچھ نکتہ داں یا نکتہ چیں یہ کہیں گے کہ ہر واقعہ ہی منشائے الٰہی سے ہوتا ہے ¾ پھر ہم قیامِ پاکستان کو خصوصی طور پر ذات باری تعالیٰ کے فیصلے یا ارادے کا مظہر کیوں سمجھیں؟ تو اس کے جواب میں ¾ میں صرف یہ کہوں گا کہ قدرت کچھ فیصلے خاص مقاصد کے لئے کیا کرتی ہے۔
قدرت کو بیت المقدس کی آزادی مقصود تھی اس لئے اس نے تکریت کے ایک جنگل میں ایک مفرورسپاہی اور اس کی حاملہ بیوی کو ایک ایسے بچے سے نوازا جس کے باپ نے بے پناہ یاس مایوسی اور بے بسی کے عالم میں کہا۔ ” میرے بیٹے تم کس قدر منحوس ہو کہ اپنے ساتھ ہمارے مقدر میں بھی ایسی سیاہ رات اور ایسی بے سروسامانی لے کر آئے ہو۔“
ماں یہ بات سن کر تڑپ اٹھی اور بولی ۔ ” مت کہو ایسی بات یوسف میرا دل کہتا ہے کہ ہمارے اس لخت جگر کے دم سے ہمارا ہی نہیں ہماری قوم کا مقدر بھی روشن ہوگا۔ میرے باپ نے کہا تھا کہ اپنے بیٹے کا نام صلاح الدین رکھنا ۔ دیکھنا ہمارا صلاح الدین ہمارا نام روشن کرے گا۔“ یہ صرف ایک ماں کی دعا نہیں تھی۔ قدرت کا فیصلہ بھی تھاکہ اُمتِ محمدی کے مقدر میں جو پسپائیاں ہزیمتیں اور رسوائیاں لکھی جارہی تھیں انہیں تاریخ کے کباڑخانے میں پھینک کر کامرانی و فتحمندی کی نہ رُکنے والی یلغار کی ایک نئی داستان تاریخ کے صفحات پر قلمبند کرنے والا بطلِ جلیل ظہور پذیر ہو اوروہ وقت کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے لے۔
قدرت کو یہ بھی مقصود تھا کہ عالم ِ اسلام میں تباہی و بربادی اور وحشت و بربریت کے پیام بر بننے والے ناقابلِ تسخیر منگول لشکر کا راستہ روکنے کے لئے ایک بطلِ جلیل مصر کے افق پر نمودار ہو اور چنگیزی فتنے کو این جالوت کے میدان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردے۔ ہلاکو خان کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوگا کہ عراق اور شام میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے والے لشکرِ قہار کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے والا بطل ِ جلیل دریائے نیل کے قریب اس کا انتظار کررہا ہے۔
سلطان بیبرس کے ہاتھوں ہلاکو خان کے عظیم الشان لشکر کی تباہی ایک معجزے سے کم نہیں تھی۔کہنامیں یہی چاہ رہا ہوں کہ جب قدرت کوئی بڑا فیصلہ کیا کرتی ہے تو اس پر عملدرآمد کے لئے معجزوں کو بھی بروئے کار لاتی ہے۔ میری حقیر رائے میں قیامِ پاکستان کسی بھی نقطہ نظر سے ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ اس سے بھی بڑی بات میں یہ کہناچاہتا ہوں کہ تاریخ کے ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ پر قائداعظم محمد علی جناح ؒ جیسی کرشمہ ساز شخصیت کا سامنے آنا بھی ایک بہت بڑا معجزہ تھا۔ اس معجزے کے پیچھے برصغیر کے اُس بطلِ جلیل کی مدبرانہ بصیرت اور مفکرانہ جدوجہد تھی جنہیں دنیا شاعرِ مشرق کے نام سے جانتی ہے۔
یہ منشائے الٰہی تھی کہ خدا کے آخری پیغام کے پرچم برداروں کو کرہ ءارض پر ایک ایسا خطہ ءزمین ملے جہاں وہ اپنے قائدِ حقیقی کی رہبری میں جنم لینے والی ریاستِ مدینہ کی یادوں اور روایات کو نئی زندگی دے سکیں۔آج قیامِ پاکستان کے ٹھیک 67برس بعد آسمان ہم سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ ” کیا ہم نے منشائے الٰہی کی لاج رکھی ہے ؟ کیا ہم نے وہ عہد پورا کیا ہے جو تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کی فضاﺅں میں گونجا کرتا تھا؟
”پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔“
کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس خطہ ءزمین پر جسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی ہے ¾ ہنوزحکمرانی ان قوتوں کی ہی ہے جو آزادی سے قبل تاجِ برطانیہ کی وفاداری کا دم بھرا کرتی تھیں؟آج جنرل پرویز مشرف پر اس الزام میں دفعہ 6کے تحت غداری کامقدمہ چل رہا ہے کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور حکمران طبقوں کے دوسرے زعماءکے اشتراک ِ فکر وعمل سے بننے والے آئین کو توڑا۔ کیا اس سے کہیں بڑا مقدمہ ان قوتوں کیخلاف نہیں چلنا چاہئے جنہوں نے پاکستان کی بنیادی شناخت اور اسکی فکری اساس کیخلاف غداری کی ہے؟ میں یہاں کسی سیاسی جماعت یا کسی ” قومی رہنما “ کا نام لئے بغیر پوچھوں گا کہ کیا اُن میں کوئی ایک شخص بھی حضرت ابوبکر ؓ ¾ حضرت عمر ؓ ¾ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کی جانشینی کرنے کی ذرا سی بھی اہلیت رکھتا ہو۔
آج کی ” ریاستِ مدینہ “ میں تو ملک کے بڑے بڑے سرمایہ دار جاگیردار اور تجارت پیشہ خاندان اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے قوم کو اشتہاروں کے ذریعے بے مثال ترقی و خوشحالی کے مژدے سنا رہے ہیں۔ کیا حضرت عمر ؓ کے مدینہ میں یہ بات کوئی شخص سوچ بھی سکتا تھا کہ اس کے ایک ہاتھ میں ” کاروباری منصوبے ہوں “ اور دوسرے ہاتھ میں قومی خزانے کو خرچ کرنے کاا ختیار ؟ کیا حضرت عمر ؓ نے اپنے فرزند کو اس بات پر سخت سرزنش نہیں کی تھی کہ اس نے ایک صوبے کے گورنر کی مدد سے کاروبار کیا تھا ؟ ایک اسلامی ریاست میں یہ بات سوچی بھی نہیں جاسکتی کہ قومی و سائل و دولت کا کنٹرول ایسے ہاتھوں میں ہو جو خود سر سے پاﺅں تک کاروبار میں ملوث ہوں ؟ یہی وہ المیہ ہے جس نے علامہ اقبال ؒاور قائداعظم ؒ کے پاکستان کو دورِ جدید کی ” ریاستِ مدینہ “ بنانے کی بجائے سرمایہ کاروں اور طالع آزماﺅں کی شکار گاہ اور محروم اور یاس زدہ خلقِ خدا کے خوابوں کا مدفن بناڈالا ہے۔اسی المیہ کے ساتھ جڑا ہوا ایک اور المیہ یہ ہے کہ اِس ملک میں اِس کے سرمایہ داروں اس کے اہل وسائل اسکے جاگیرداروں اور اس کے تجارت پیشہ طالع آزماﺅں نے سیاست اور اقتدار کو بھی ” جمہوریت “ کا نام دے کر سرمایہ کاری کا سب سے زیادہ منفعت بخش ذریعہ بنا لیا ہے۔کیا کوئی عام شخص صرف اپنی اہلیت اپنی دیانت اپنی لیاقت اور اپنی شرافت کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں جانے کے انتخابی گورکھ دھندے پر سرمایہ لگانے کی استطاعت رکھتا ہے۔؟ پھر یہ کیسے ممکن ہوگا کہ عتبہ امیہ شیبہ ولید سہیل ¾ ابولہب اور عمرو ہشام کی جگہ ریاست کے امین اور محافظ بلال حبشی ؓ جیسے لوگ بن جائیں؟
میں نے حضرت بلال ؓ کا نام اسلامی مساوات کی ایک عظیم مثال کے طور پر لیا ہے۔اس نام کی علامتی اہمیت ہے۔اگر پاکستان کو واقعی علامہ اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ کی ریاستِ مدینہ بنانا مقصود ہے تو حضرت بلال ؓ کو اقتدار سوپننے کا نظام لاناہوگا۔ اس نظام کو لانے کے لئے ہمیں اُس نظامِ فاسد کو دفن کرنا ہوگا جس نے ہمیں رسوائیوں اور ذلتوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔
یہ کیسے ہوگا ؟ میں نہیں جانتا۔ مگرصلاح الدین ایوبیؒ اور سلطان بیبرس ؒکے ظہور کے بارے میں کون جانتا تھا؟مجھے وہ تمام اسباب اور آثار پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں جن کی کوکھ سے حضرت بلال ؓ کو طاقت ور اور عبداللہ ابن ابی کو زیردست بنانے والی قوتیں جنم لیا کرتی ہیں۔
عظمت ¾ پاکستان کی تقدیر ہے۔اور اس تقدیر کے تقاضے پورے کرنے کیلئے قدرت ایک اور معجزہ ضرور دکھائے گی انشاءاللہ۔۔۔معجزوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا
معجزوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا
Jul 19, 2014