برطانیہ و یورپ میں میناروں والی مساجد کی تعمیر

برطانیہ و یورپ سوئٹزرلینڈ میں مسلم مخالف گروپ کے باوجود اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے جس کی وجہ اسلام و دین کے عقائد اور قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں جس سے غیر مسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بلجیم کے شہر اینٹورین میں بھی میناروں کی مسجد کی تعمیر روکنے کیلئے نسل پرست پارٹی نے مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کی سخت مخالفت کی‘ لیکن بلجیم کی حکومت نے نسل پرست پارٹی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے میناروں کی مسجد کی تعمیر کا حکم دیدیا۔ اسی طرح گزشتہ روز ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن اور سوئٹزرلینڈ میں بھی میناروں کی مساجد کی تعمیر کی مخالفت کے باوجود اجازت دیدی گئی۔ یورپین ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں کمی اور اسلام کے بارے میں زیادہ پرچار نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو وہ آزادی حاصل نہیں جو آزادی برطانیہ نے دے رکھی ہے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں نہ صرف مساجد کی تعمیر کی گئی بلکہ بڑے بڑے میناروں کی بھی قانوناً اجازت ہے جو مسلمانوں کو ان کی اہمیت اور بنیادی حقوق کی دستیابی کا شعور دیتی ہے۔ اس شعور کے تحت وہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ برطانیہ وہ ملک ہے جہاں ہر شخص کو اس کے حقوق حاصل کرنے کیلئے تعلیم دی جاتی ہے اور اسے طریق کار سکھایا جاتا ہے۔ مختلف امور پر معلومات حاصل کرنے کیلئے برطانیہ میں ایڈوائزر سنٹرز قائم ہیں جو ہر طرح کی معلومات فراہم کرتے ہیں جہاں مختلف زبانوں میں مختلف کمیونٹیز کے لوگوں کو نہ صرف معلومات دی جاتی ہیں بلکہ انہیں مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے بھی ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کیلئے مسلم ریسورس سنٹرز بھی قائم کئے گئے ہیں تاکہ مسلمانوں کیلئے مشکلات کو آسان کیا جا سکے جو ابھی تک یورپین ممالک میں ناپید ہیں‘ لیکن اس کے باوجود مسلمان اور پاکستانیوں نے کم وقت اور کم تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے کردار و فعل سے وہ مقام حاصل کر لیا ہے جس کے ذریعے وہ دین و اسلام کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ حکومتوں کی طرف سے انہیں کسی قسم کی مشکلات درپیش نہیں ہیں جس کی واضح مثال کوپن ہیگن میں نئی تعمیرشدہ میناروں والی مسجد ہوگی۔ اس مسجد کیلئے قطر کی حکومت نے 1.50 ملین ڈالر فراہم کئے جو 6 ہزار 700 سکوائر میٹر پر تعمیر کی گئی۔ مقامی نسل پرست پارٹی ڈینش پیپلز پارٹی کے اثرورسوخ اور متنازعہ خاکوں کی اشاعت کی وجہ سے کافی تنائو پیدا ہو گیا تھا‘ لیکن مسلمانوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ قطر کی حکومت کی طرف سے جو مالی مدد کی گئی ہے‘ ایک مسلمانوں کیلئے تحفہ ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ اگر قطر کی حکومت مزید مدد کرنا چاہے تو وہ قبول کریں گے وگرنہ ڈنمارک کے مسلمان اپنی مدد آپ کے تحت یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ مسجد کے اختتام کے موقع پر مسلمانوں کی خوشی دیدنی تھی۔ ہر شخص ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہا تھا۔ قطر کی حکومت اور ڈنمارک کے حکومتی اراکین نے مسلمانوں کو خصوصی مبارکباد دی اور انہیں اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے اور آئندہ درپیش مسائل کے حل کیلئے اپنی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اسی طرح سوئٹزر لینڈ میں بھی میناروں کی مسجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے کردار سے متحد‘ منظم ہوکر پاکستان کی ساکھ اور اپنی کمیونٹی کے وقار کیلئے جدوجہد کریں۔ہم اپنے ملک کے اصل سفیر ہیں۔ اپنے کردار اور فعل سے اپنے ملک کا نام روشن کریں۔ جن ممالک میں وہ رہتے ہیں‘ ان ممالک کے قوانین کو تسلیم کریں۔ میں نہ مانوں کی پالیسی ترک کریں۔ دیارغیر میں رہ کر اپنی کمیونٹی کی مدد کریں تاکہ ہم معاشرتی ُبرائیوں سے دور رہ کر معاشرے میں اپنا مقام بنائیں اور جو مساجد یورپ و برطانیہ میں بن رہی ہیں‘ وہاں سے نوجوان نسل کو پُرامن شہری بنائیں تاکہ سارے معاشرے میں ایک مقام اور نام پیدا ہو جس کو ہم سب کو ضرورت ہے۔ میناروں کی مساجد تعمیر کرنے سے ہم مسلمان نہیں بن جاتے‘ ہمیں اپنے کردار کو بھی درست کرنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن