سیانے کہتے ہیں کہ ہمسائے کا منہ لال ہو تو اپنا چہرہ تھپڑ مار کر سرخ نہیں کر لینا چاہیے۔ ترکی میں فوج کے ایک گروہ نے طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی ۔ اس سازش میں مسلح افواج کے چیف شامل نہیں تھے مگر ہزاروں فوجی اس کا حصہ ضرور تھے۔ فوج کے بڑے حصے نے اس بغاوت کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیامگر عوام جس طرح جمہوری حکومت کی حمایت میں جوش اورولولے سے اپنے گھروں سے نکلے اس کی مثال جمہوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ترک صدر طیب اردگان اور وزیراعظم بن علی کی رات گئے اپیل پر استنبول اور انقرا میں لوگ فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔آج سے دس سال قبل ترکی میں فوج کی مقبولیت 98فیصد تھی اب اندازہ کرلیں کہ عوام کے جمہوریت کی حفاظت کیلئے دیوانہ وار سڑکوں پر آنے سے کتنی رہ گئی ہوگی۔سڑکوں پر دندناتے ٹینکوں کو دیکھ کر کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ بغاوت فوج نے بطور ادارہ کی ہے یا یہ ایک ٹولے کی مہم جوئی ہے۔وہ اسے فوج کی طالع آزمائی سمجھ کر ٹینکوں اور توپوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور ٹینکوں کو پسپا کرکے دم لیا۔عوام نے یہ سارا کچھ جمہوریت کا وہ روپ دیکھ کر کیا جو طیب اردگان چودہ سال سے عوام کو دکھارہے تھے۔
طیب اردگان دومرتبہ ترکی کے وزیر اعظم بنے اور اب وہ صدر ہیں۔ رجب طیب اردگان نے اقتدار سنبھالا تو معیشت ڈوبی ہوئی تھی۔ لیرا ٹکے ٹوکری تھا، بے روزگاری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ انحطاط کی پستی میں گری معیشت کے باعث ترکی کو ’’مرد بیمار‘‘ کہا جاتا تھا۔ طیب اردگان نے ترکی کی معیشت کو بلندیوں کی معراج پر پہنچا دیا۔برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا۔ آج ترکی کی ایکسپورٹ 186.6 بلین ڈالر سے زائد ہے۔ GDP کے لحاظ سے ترکی 15واں بڑا ملک ہے۔ ترکی نے چند سال میں عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل سے نجات حاصل کرکے عملاًکشکول توڑ دیا۔ تعلیمی نظام کو قومی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کیساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلہ بنایا، ترکی میں آج شرح خواندگی90 فیصدسے تجاوز کرچکی ہے ۔بین الاقوامی معاملات میں جرأت مندانہ فیصلوں سے ترکی کو ایک خوددار ،باوقاراور خودمختار ملک کا مقام دلایا۔مسلم ممالک میں ایران اور ترکی ہی دوممالک ہیںجو اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔یہ تو کہنے کی حد تک ہے کہ ترک فوج کے ایک ناتجربہ کار اور جذباتی گروپ نے مہم جوئی کی مگر گروپ کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے۔اس امکان کو تقویت امریکی وزیر خاجہ جان کیری کے تردیدی بیان سے بھی ملتی ہے۔ یہ بیان کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔کیونکہ راقم ان معاملات کی مکمل خبر رکھتے ہیں اور اصل حقیقت یہ ہے کہ گولن نامی ایک مذہبی روحانی پیشوا نے دنیا بھر میں اپنا تعلیمی اور روحانی نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے اور فوج میں موجود کچھ لوگ بھی اس کی تعلیمات سے متاثر تھے ۔آج ناکام ترکی بغاوت پہ بغلیں بجانے والے یہ تو سوچیں کہ یہ ترک فوج کی طرف سے مارشل لاء لگانے کی کوشش نہیں تھی یہ تو گولن کی تحریک کے پیشرو تھے جنہوں نے فوج کے اندر ایک گروپ بنا کر فوج سے بھی بغاوت کی۔ ترکی میں عوام کی طرف سے ناکام بنائی جانے والی بغاوت پر ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف نے ترک عوام کو سلام پیش کیا ہے جبکہ حکومتی ترجمان پرویز رشید نے حسب معمول اور اپنی خصلت کیمطابق کفن پھاڑ کر بولتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں مارشل لاء چاہنے والوں کیلئے ترک عوام کا جمہوری حکومت کے حق میں اٹھ کھڑے ہونا ایک پیغام ہے۔ انکے بقول بعض سیاستدان اور میڈیا عناصر فوج کو بغاوت پر اکساتے ہیں۔ جمہوری حکومت نے عوام کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔ انکے مسائل حل کرنا ہوتے ہیں۔ ریاست کو جمہوری انداز میں چلانا ملکی وقار اور خودمختاری کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف آمریت کی سازش ناکام بنانے پر ترک عوام کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ کیا انہوں نے بھی ایسا کچھ کیا ہے جس پر عوام ان پر فدا ہونے کیلئے ترک عوام کی طرح پاک فوج کی جانب سے ایسی کسی مہم جوئی پر سڑکوں پر آجائیں؟ معیشت ڈوب چکی ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس کر کہیں اجتماعی اور کہیں انفرادی خودکشیاں کر رہے ہیں۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار جو شریف فیملی کیلئے منی لانڈرنگ کا اعتراف کر چکے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 22ارب تک پہنچانے پر اترارہے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے اس سے کتنے زیادہ قرضے لیے اور کن ناروا شرائط پر لیے۔ کشکول توڑنے کے بجائے اسکے سائز میں اضافہ کر لیا۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں ناپید ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دور کو کرپشن کے عروج کا دور کہا جاتا ہے۔ ن لیگی زعما کے ایسے ایسے کرپشن سکینڈل سامنے آئے ہیں کہ اب عوام کیلئے دونوں پارٹیوں کی لیڈرشپ میں موازنہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت وزیراعظم کی اربوں ڈالروں کی آف شور کمپنیوں کا جواز پیش کرنے سے قاصر ہے۔ عوام اس کرپشن کو بھولنے اور معاف کرنے پر کسی طور پر تیار نہیں ہیں۔ وہ دعائیں کر رہے ہیں کہ انکی زندگی اجیرن کرنے والوں نے کل جانا ہے تو آج ہی جائیں۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے تو قومی غیرت کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ بھارت کے کشمیریوں پر مظالم اور بربریت پر وزیراعظم پھسپھسا سا بیان دے دیتے ہیں۔ کل بھوشن کی گرفتاری پر تو گویا انکی زبان بند رہی۔ متحدہ کی قیادت کے ’’را‘‘ کے ایجنٹ ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہا مگر ان کیخلاف وزیراعظم کوئی نوٹس نہیں لے رہے۔لوگ شہروں میں بڑے بڑے بل بورڈ لگا کر اور بینر آویزاں کرکے جنرل راحیل شریف کو ’’چلے بھی آئو‘‘ دعوت دے رہے ہیں۔ یہ بل بورڈ عام آدمی نے تو ہٹا نے کی کوشش نہیں کی۔ اس لیے کہ یہ انکے اندر کی آواز بھی ہے۔ حکومت کو اپنے کارندوں کے ذریعے بینرز اتروانا پڑے۔ فوج نے حکومت کے کارناموں کے باعث ایسا قدم اٹھایا تو لوگ مٹھائیاں تقسیم کرینگے، فوجی گاڑیوں کا استقبال اور فوج کو سلام کرینگے۔ حکمرانوں نے اپنی کرپشن، عوام دشمن پالیسیوں اور کمزور خارجہ پالیسی سے جمہوریت کو عوام کیلئے ایک ڈرائونا خواب بنا دیا ہے۔ جس سے نجات ایک فطری ہے۔ فوج اگر ٹیک اوور کرتی ہے تو مسلم لیگی خود فوج کے ساتھ اقتدار میں شامل ہونے کیلئے فوج کو حسب سابق سلیوٹ کرتے نظر آئینگے۔ دانیال عزیز ،طلال چودھری ،امیر مقام ،ماروی میمن، زاہد حامد ایسے بہت سے لوگ تو گویا اپنے گھر اور گھونسلوں میں لوٹ آئینگے۔ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے دن سے پاکستان کے عاقبت نااندیش وزراء بھنگڑے ڈال رہے ہیں ایسے جیسے یہ بغاوت انقرہ میں نہیں رائے ونڈ میں ناکام ہوئی ہو۔