وہ مقبوضہ جموں کشمیر میں پلوامہ کے گاؤں دادسرا میںایک اسکول پرنسپل کے گھر نوے کی دہائی کے اُس دور میں پیدا ہوا، جب وادی میں بھارتی مظالم کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد زور پکڑ رہی تھی، مجاہدین کی مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں بھارتی فوج شدید دباؤ کا شکار تھی اور کشمیریوں کو اپنی آزادی کی منزل کہیں قریب ہی دکھائی دے رہی تھی اور شاید اسی حقیقت سے خوف کھاتے ہوئے بھارت نے کشمیری عوام پر مظالم کی انتہا کررکھی تھی۔ گھر کے اعلی درجے کے تعلیمی ماحول کی وجہ سے برہان مظفر وانی بھی ایک ہونہار طالب علم ثابت ہوا تھا۔ ہونہار طالب علم ہونے کے ناطے برہان وانی کو تاریخ کے مطالعے کا شغف شروع سے ہی ہوگیا تھا۔ کشمیر کی تاریخ پڑھنے پر جب اُسے کشمیری مسلمانوں کے شاندار ماضی، ڈوگرا سرکار کے ظلم و ستم اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کی تاریخ پڑھنے کا موقع ملا تو اُسے بھارت سے شدید نفرت ہوگئی۔لیکن برہان مظفر وانی کی اصل کہانی 2010ء کے موسم گرما میں اُس وقت شروع ہوئی، جب بھارتی فوج نے 130 کشمیری مسلمانوں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ اس واقعے کیخلاف کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک دن برہان مظفر وانی، اُس کا بھائی خالد مظفر وانی اوران کا ایک دوست موٹر سائیکل پرترال جارہے تھے۔ بھارتی فوجی اہلکاروں نے اُنہیں روکا اور موٹر سائیکل پردور سے سگریٹ لاکر دینے کا کہا۔ سگریٹ لاکر دینے کے باوجود فوجی اہلکاروں نے برہان سمیت تینوں کو بلاوجہ مارا پیٹا اور تذلیل کی۔ یہ تشدد بھارتی مظالم کا براہ راست تجربہ تھا، جس کے بعد پندرہ سالہ برہان حزب المجاہدین کی مدد کیلئے سوشل میڈیا کا محاذ سنبھال لیا، حزب المجاہدین میں شامل ہونے کے بعد برہان وانی سماجی رابطوں پر بے حد مقبول ہوگئے، برہان نے اپنی جہادی تصاویر اور وڈیوز کو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کرنا شروع کیا تو کشمیریوں کی جہدوجہد آزادی میں ایک نئی طرح کی تیزی آگئی، کچھ عرصہ بعد خالد وانی کو بھارتی فوج نے شہید کیا تو بھارتی فوج کیخلاف برہان وانی کے غصے اور نفرت میں مزید اضافہ ہوگیا، جس پر برہان نے بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر اپنی مہم مزید تیز کردی۔اپنے ایک ویڈیو میں برہان وانی نے جنوبی کشمیر کے نوجوانوں کو اپنی تنظیم میں بھرتی ہونے کی اپیل کی ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیر کی کسی عسکری تنظیم کی جانب سے باقاعدہ طور پر کشمیری نوجوانوں کو عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی تھی۔ سماجی رابطے کی پوسٹوں سے صاف لگتا ہے کہ برہان وانی کشمیر میں ہندوؤں کی آباد کاری کیخلاف اور کشمیر کو اسرائیل فلسطین طرز پر بدلنے کی مخالفت کرتے تھے، البتہ برہان وانی کے مطابق کشمیری پنڈت کشمیر میں رہ سکتے تھے ۔ برہان وانی نے ہندو زائرین پر حملے نہ کرنے کی باتیں کیں تھیں البتہ وہ بھارتی فوج کو تواتر کے ساتھ دھمکاتے رہتے تھے۔ 8جولائی کو بھارتی فوج نے برہان وانی کو گرفتار کرنے کے بعد ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا تو لاکھوں کشمیریوں نے گھروں سے باہر نکل کر بھارت کیخلاف پرامن مظاہرے شروع کردئیے۔ کشمیری حریت قیادت نے اس ماورائے عدالت قتل کی شدید مذمت کی تو بھارتی فوج نے کئی رہنماؤں کو بھی حراست میں لے لیا اور باقی کو نظربند کردیا گیا۔ لوگوں کو حالات سے بے خبر رکھنے کیلئے وادی میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس بند کردی گئی، لیکن اِسکے باوجود لاکھوں کشمیری برہان مظفر وانی کے جنازے میں شریک ہوئے جو اس بات کی گواہی تھی کہ برہان وانی کشمیر کا سپاہی اور ہیرو تھا۔ اگرچہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور ریاستی دہشت گردی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کشمیر کی حالیہ تاریخ ان مظالم سے بھری ہوئی ہے، لیکن برہان مظفر وانی چھوٹی سی عمر میں ہی بندوق اٹھانے پر کیوں مجبور ہوگیا؟اسکے بارے میں آج خود بھارتی میڈیا چیخ رہا ہے کہ ’’برہان وانی کے بڑے بھائی خالد وانی کو بھارتی فورسز نے 2010ء میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی بھرتیاں کرنے کے الزام میں ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ، یہ تشدد برہان کے آنکھوں کے سامنے ہوا، جس کے بعد برہان نے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا‘‘۔ برہان وانی کے والد مظفر وانی نے گذشتہ سال ہندوستان ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ’’برہان صرف اس لیے عسکریت پسند نہیں بنا تھا کہ اس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس نے اس لیے ہتھیار اٹھائے کہ اس نے ہندوستانی فوج کو دیگر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، ہندوستان سے آزادی حاصل کرنا صرف برہان کا ہی نصب العین نہیں تھا بلکہ یہ ہر کشمیری کا مطالبہ ہے، یہاں تک کہ میرا بھی یہی مطالبہ ہے‘‘۔
قارئین کرام!! برہان مظفر وانی کی ظالمانہ شہادت کی پاکستان نے شدید الفاظ میں مذمت کی اور پرامن مظاہرین کی شہادتوں پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے بھی احتجاج ریکارڑ کرایا گیا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے برہان مظفر وانی کو کشمیر کی آزادی کا سپاہی قرار دیا۔پاکستانی حکومت نے بھارت کی ریاستی دہشتگردی کیخلاف موثر ترین طریقہ سے بین الااقوامی برادری کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کیلئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ، اسلامی ممالک کی تنظیم اور دیگر عالمی اداروں کو خطوط لکھ کر کشمیر میں بھارتی مظالم کی جانب توجہ مبذول کرائی اور اِن عالمی اداروں پر کشمیر کی آزادی کیلئے کردار ادا کرنے پر زور دیا۔19 جولائی کو یوم الحاق کشمیر منانے کے اگلے روز یعنی 20 جولائی کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف وزیراعظم نواز شریف کی اپیل پریوم سیاہ منایا جارہا ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان ہر حال میں کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کیلئے دی جانے والی قربانیوں اور آزادی کیلئے کی جانے والی جہدوجہد کی سیاسی و اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔اس بات پر صرف پاکستانی عوام ہی نہیں بلکہ سارے کشمیر کے عوام کا پختہ یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب کشمیری شہداء کا خون رنگ لائے گا اور کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔