یہ اب تک ایشیا میں اچھا کھیلے ہیں، یہ صرف متحدہ عرب امارات میں اچھا کھیلے ہیں، موافق حالات سے نکلیں گے تو پتہ چلے گا کہ کون کتنا اچھا ہے۔ اس ٹیم کے کھلاڑی فٹنس مسائل کا شکار ہیں۔ برطانیہ جائیں گے تو حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی اور تو اور صاحبزادہ شاہد آفریدی کا یہ کہنا کہ ملک میں ٹیلنٹ نہیں ہے۔ ان تمام سخت باتوں اور دبائو میں قومی کرکٹ ٹیم لارڈز ٹیسٹ کے لیے میدان میں اترتی ہے اور کھیل کے چوتھے روز مستجاب ہو کر تاریخی کامیابی حاصل کر لیتی ہے۔ ہوم آف کرکٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے جہاں عمدہ کھیل سے دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کو تفریح فراہم کی وہیں کامیابی کے بعد افواج پاکستان کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے منفرد انداز میں جشن فتح بھی منایا۔ کرکٹرز نے آرمی کے ٹرینرز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ’فوجی‘ انداز میں سلیوٹ کیا اور ’پش اپ‘ بھی لگائے۔ آج یہ انداز تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ یونس خان نے اس کام کی قیادت کی۔ اس سے پہلے مصباح الحق نے پہلی انگز میں سنچری سکور کرنے کے بعد بھی یہی انداز اپنایا۔ذرا بچ کے! ہوسکتا ہے وزیراعظم اور سپاہیوں خواجہ آصف اور پرویز رشید کے ماتھے پر ’’وَٹ‘‘ پڑ رہے ہیں۔قومی ٹیم کی جیت پر سب سے پہلے جنرل راحیل شریف نے مصباح کو مبارکباد دی۔ یہ بھی حکمران اشرافیہ کے لیے بھاری پتھر ہے۔ پاس کر یا برداشت کر۔ ویسے فوج بھی اپنی کرکٹ ٹیم بھی اپنی تو سب کو خوش ہونا چاہیے اور اس جشن فتح کو صرف کامیابی کے جشن تک ہی رکھنا چاہیے۔
برطانیہ جانے سے پہلے قومی کرکٹرز کیلئے کرکٹ بورڈ نے آرمی کے ٹرینرز کی زیر نگرانی ایک فٹنس کیمپ کا انعقاد کیا۔ کھلاڑی اس کیمپ سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کے دلوں میں اپنے ٹرینرز سے حقیقی لگائو کھیل کے میدان میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ لارڈز میں قومی کرکٹ ٹیم کی کامیابی کے بعد ملک بھر میں کرکٹ کے متوالوں اور ایک عام پاکستانی نے بھی اس خوشی کو محسوس کا ہے۔ حکمرانوں، سیاستدانوں، سماجی کارکنوں شعبہ کھیل سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے مبارکباد کے پیغامات جاری کیے۔ لارڈز ٹیسٹ میں کامیابی سے پاکستان نے چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا آغاز کامیابی سے کیا ہے۔ سیریز کے باقی میچوں میں اس فتح سے حاصل ہونے والا اعتماد کھلاڑیوں پر مثبت اثرات چھوڑے گا۔ مصباح الحق نے اپنی کارکردگی سے ایک مرتبہ پھر خود کو مرد بحران ثابت کیا ہے۔ یونس خان نے دونوں انگز میں مشکل وقت میں برطانوی بائولرز کا بھرپور مقابلہ کیا۔ بدقسمتی سے وہ بڑی انگز کھیلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ اسد شفیق نے بھی دونوں انگز میں اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا نمبر چھ پر وہ ٹیسٹ میچوں میں ایک مستند اور قابل اعتماد بلے باز کی حیثیت سے اپنا آپ منوا چکے ہیں۔ سرفراز احمد نے بھی عمدہ کھیل پیش کیا۔ محمد عامر نے واپسی کو یادگار بنایا، اچھی لائن لینتھ پر بائولنگ کی، وکیں بھی حاصل کیں، فیلڈرز کی سپورٹ رہتی تو زیادہ کامیاب رہتے۔ کم زیر بحث رہنے والے راحت علی کا کردار بالخصوص دوسری انگز میں خاصا اہم رہا جب انہوں نے ٹاپ آرڈر کو بے بس کرکے پویلین بھیجا۔ یاسر شاہ تو میچ کے ’دلہا‘ ہیں انہوں نے اپنی گھومتی گیندوں سے میزبان ٹیم کے بلے بازوں کو گھمائے رکھا اور گرائونڈ پر ٹکنے نہیں دیا انہوں نے اکیلے ہی سعید اجمل، حفیظ اور عبدالرحمن کی کمی کو پورا کر دیا۔ یاسر شاہ کی کامیابیوں میں مشتاق احمد کی محنت کا بھی عمل دخل ہے۔ آئندہ میچز میں اوپنرز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اظہر علی اور یونس خان بھی لمبی انگز کھیلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ میزبان ٹیم کو چند ٹاپ پلیئرز کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔ آئندہ میچز میں انگلش ٹیم ’کم بیک‘ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اینڈرسن اور سٹوکس کی واپسی سے برطانوی ٹیم کی قوت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنی فیلڈنگ کی خامیوں کو دور کرنے اور غلط شاٹس سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھے کھیل کے ساتھ ساتھ تنازعات سے بچنے کی بھی اشد ضرورت ہے کامیابی پر دنیا بھر میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے پرستاروں، کرکٹ بورڈ کے چیئر مین، سلیکشن کمیٹی، کوچنگ سٹاف اور تمام کھلاڑیوں کو مبارکباد اور آئندہ میچز میں عمدہ کارکردگی کے لیے نیک توقعات، پاکستان زندہ باد!
لارڈز میں سبز ہلالی پرچم کے پھریرے
Jul 19, 2016