اس چاندنی کے تخت پر سوتا تو ہے نہیں

Jul 19, 2017

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

میں آج پھر ایک بہت معروف اور بہت ممتاز شاعرہ شاہدہ دلاور شاہ کی ایک بہت خوبصورت غزل سے اپنے کالم کا آغاز کر رہا ہوں۔ جاپان سے آنے والے امیر کبیر مگر بہت اچھے دل والے شاعر عامر بن علی نے چیچہ وطنی میں ایک بہت بڑا مشاعرہ کرایا جہاں تقریباً ایک سو شاعروں نے اپنا کلام سنایا۔ اصل داد تو حاضرین اور سامعین کو دینا چاہئے جنہوں نے سارا مشاعرہ بڑے صبر سے سنا۔ بہت کم شاعر تھے جن کو داد ملی۔ ورنہ لوگ خاموشی سے بیٹھے رہے۔ ایک کان سے سنتے اوردوسرے کان سے نکال دیتے۔ بہت سے ایسے لوگ تھے جو دونوں کانوں سے سنتے تھے اور دونوں کانوں سے نکال دیتے تھے۔
چیچہ وطنی میں شاعروں نے اپنے آپ کو بے وطن سمجھا۔ اس مشاعرے کے بعد اس شہر کا چیچہ بے وطنی رکھ دینا چاہئے۔
بڑے بڑے مشاعرہ باز شاعروں کو داد نہ ملی اور دو بار ایسے شاعروں کو بھی داد ملی جو بالکل غیر معروف تھے۔ مشاعرے کی کمپیئرنگ پیلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر پروفیسر صغرا صدف نے کی۔ وہ پاکستان میں عامر بن علی کی واحد دوست ہیں جب صغرا صدف ہم سے مہربانی فرماتی تھیں تو عامر بن علی بھی توجہ فرماتے تھے۔ وہ ڈائریکٹر جنرل میں لفظ جنرل کی جرنیل سمجھتی ہیں۔ وہ پروفیسر تو ہیں کچھ دن لیکچرار کے طور پر کسی کالج میں پڑھایا ہے۔
پھر وہ کسی نہ کسی ادارے سے منسلک رہیں۔ جہاں بھی گئیں۔ کام خوب کیا۔ اس ادارے کو اپنی ملکیت سمجھ کر بنانے کی کوشش کی۔ اس کے لئے ہم ان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
بات چیچہ وطنی والے مشاعرے کی ہو رہی تھی تو اس کے لئے عامر بن علی کو ڈاکٹر صغرا صدف کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو مشاعرہ اتنا بھرپور نہ ہوتا۔ چیچہ وطنی کے مشاعرے میں سعدیہ صفدر کی غزل کو بہت پسندیدگی ملی۔ نامور شاعر اختر شمار نے مجھے بتایا کہ سعدیہ نے بہت اچھی شاعری پڑھی۔
اس مشاعرے کی سب سے اچھی غزل سے میں آپ کو محروم رکھنا نہیں چاہتا۔ شاہدہ دلاور شاہ کو بہت دادملی۔ ان کے بعد کئی شاعروں نے کہا کہ مشاعرہ تو شاہدہ دلاور شاہ نے بنا دیا۔ کئی زبردست شاعروں نے اپنی پرانی چیزیں پڑھیں جو مشاعروں میں پسند کی جاتی ہیں۔ مگر بات نہ بنی۔ بہرحال آپ شاہدہ دلاور شاہ کی غزل دیکھیں۔ …؎
تاروں بھرا فلک ہے بچھونا تو ہے نہیں
اس چاندنی کے تخت پر سونا تو ہے نہیں
آنسو گریں جو سنگ پہ رستہ بنائیں گے
پتھر کی آنکھ سے کبھی رونا تو ہے نہیں
چاروں طرف میں اس کے قدم ڈھونڈتی رہی
اس گھر میں کوئی پانچواں کونہ تو ہے نہیں
نسبت ہے اپنی سیدؐ کون و مکان سے
پہچان اپنی شاہدہ کھونا تو ہے نہیں
ملتان بھی شعروادب کا شہر ہے۔ وہاں علمی ادبی طور پر ممتاز ادیب اظہر سلیم مجوکہ کے کالموں کا شاندار مجموعہ ’’آس کی تتلیاں‘‘ شائع ہوا ہے ہے۔ ان کالموں میں ادبیت نے اسے بہت اہم بنا دیا ہے۔ ملتان میں ایک ادیب ہے اور وہ کسی دوسرے کو ادیب نہیں سمجھتا وہ پروفیسر بھی رہا ہے اب اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ پروفیسر ہے یا ادیب ہے؟ اظہر مجوکہ جیسے لوگ کسی شہر کیلئے ایک قسمت کی طرح ہوتے ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قاسم بگھیو ملتان گئے ان کی خاطر تواضع اور دوسری مصروفیات کیلئے مجوکہ صاحب سرگرم رہے ہیں بگھیو صاحب اسلام آباد کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی شعروادب کے فروغ کیلئے کام کرتے رہتے ہیں۔
خالد احمد کے برادر نسبتی عمران منظور ادبی رسالہ بیاض باقاعدگی سے شائع کرتے ہیں۔ بیاض نامور شاعر اور دانشور مرحوم خالد احمد نے شروع کیا تھا اس وقت اس کی اشاعت کا اہتمام عمران منظور کرتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی نعمان منظور بھی اپنے بھائی کے ساتھ ہیں اس کے علاوہ نجیب احمد، اعجاز رضوی، اسد احسان اور جاوید احمد علی مجلس ادارت میں شامل ہیں۔ اب خالد احمد کی یاد میں یہ رسالہ پوری آب و تاب سے شائع ہوتا ہے خالد احمد کے حوالے سے تصنیفات پر ایوارڈ بھی دیئے جاتے ہیں اس طرح یار مرحوم خالد احمد کیلئے لگتا ہے کہ وہ زندہ ہیں بلکہ زندہ تر ہیں۔ مرا ایک شعر ہے…؎
وہ نہیں ہے پھر بھی ہم جب یاد کرتے ہیں اسے
ایسے لگتا ہے ہمارے درمیان موجود ہے
پچھلے دنوں مقبول اکیڈمی والے برادرم مقبول ملک سے رابطہ ہوا وہ بوڑھے ہو رہے ہیں مگر لگتے نہیں۔ انہیں عبدالستار عاصم کا تعاون بھی حاصل رہتا ہے اب بھی کبھی کبھی مقبول اکیڈمی کی طرف سے کوئی اہم کتاب سامنے آتی ہے۔
یہاں پر انہیں اپنے شاعر اور پبلشر دوست معروف ادبی شخصیت وحید احمد زمان کا ذکر کروں گا وہ گوجرانوالہ سے لاہور شفٹ ہوکر آئے ہیں مگر گوجرانوالہ سے بھی رابطہ ہے۔

مزیدخبریں