عالمی شہرت یافتہ مصور، خطاط اور شاعر صادقین کی 87ویں سالگرہ کے موقع پر سرچ انجن گوگل نے پاکستان کا ڈوڈل صادقین سے منسوب کر دیا یہ خبر پڑھنے کے بعد مجھے صادقین سے ملاقاتیں یاد آئیں جو ان کے لاہور قیام کے دوران ہوتی رہیں۔ ان کا ڈیرہ باغ جناح اوپن ائر تھیٹر کے قریب ایک پہاڑی پر تھا۔ صادقین نے اپنی مصوری اور خطاطی کے ذریعے لاہور شہر کو سجایا۔ انہوں نے زیادہ وقت لاہور میوزیم میں گزارا جہاں ان کی مصوری اور خطاطی کے شاہکار دکھائی دیتے ہیں۔ صادقین روشن دماغوں کا پیر تھا۔ ان کی ہر لکیر، ہر رنگ اور ہر لفظ میں جہاد ہے۔ ان کا یہ جہاد وطن دشمنوں کے خلاف، ان کی مکاری، کرپشن، دھوکے اور فریب کے خلاف تھا۔ یہ ان کے فن کا کمال ہے کہ غالب ان کی تصویروں میں سو سال پرانا غالب نہیں بلکہ آج کا غالب نظر آتا ہے۔ لوگ ان کی خطاطی، مصوری اور شاعری پسند کرتے ہیں۔ ان کی تصویریں بولتی اور لفظ گانے لگتے ہیں۔ ان کی مصوری اور خطاطی میں جو رنگ استعمال کیے جاتے ہیں، وہ ایسے ہیں جیسے رنگ آوازیں دے رہے ہوں، جیسے کوئی نور کی تلاش میں ان کی طرف آئے۔ بادشاہوں اور فنکاروں میں ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ بادشاہ جنگوں کے ذریعے فطرت کے حسن کو تباہ کرتے ہیں مگر فنکار اپنے ساتھ جنگ کر کے اپنی تصویروں اور شاعری کے ذریعے اس حسن کو محفو ظ کر کے امر کر دیتے ہیں۔ صادقین فن کا بادشاہ اور درویش انسان تھا۔ صادقین کا ایک انٹرویو پی ٹی وی پر نشر ہوا۔ صادقین نے بتایا کہ قرآن مجید کی خطاطی کر کے ان کے ہاتھ کی شکل اس طرح ہو جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی انگلیوں کی شکل دکھائی۔ اس طرح دکھائی دیتا تھا جیسے لفظ ’’اللہ‘‘ لکھا ہو۔ صادقین کی سورت الرحمن پر خطاطی کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے ’’فبای الاربکما تکذبٰن‘‘ کو ہر صفحے پر مختلف انداز میں لکھا ہے۔ کتاب کے شروع میں انہوں نے لکھا ’’الحمدللہ کہ 9رجب المرجب 1390 ء ہجری اور 24 رجب المرجب 1390ء ہجری کے دوران میں خدائے دانا و توانا نے فقیر کو اس کام کا آغاز کرنے اور تکمیل تک پہنچانے کی سعادت عطا فرمائی‘‘
صادقین کے فن کی طرح ان کے نام میں بھی انفرادیت ہے۔ عام طور پر صادق نام رکھا جاتا ہے۔ صادق کی جمع صادقون ہے۔ صادقین کے معنی ہیں دو صادق۔ عربی میں واحد، تثنیہ اور جمع استعمال ہوتا ہے یعنی دو کے لیے الگ حرف۔ باقی تمام زبانوں میں واحد جمع ہی ہوتا ہے۔ صادقین نام رکھ کر انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک نہیں دو انسان ہیں۔ بطور مصور اور خطاط۔ ان دونوں فنون میں انہوں نے کمال مہارت اور بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ صادقین کا پورا نام سید صادقین احمد نقوی ہے۔ قرآنی خطاطی میں نئے انداز کے یہ خالق ہیں۔ میورلز (دیواری تصاویر) بنانے میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ صادقین کی مادری اور پدری زبان اردو تھی، اس کے باوجود انہوں نے لاہور قیام کے دوران میں میری درخواست پر چند رباعیاں پنجابی زبان میں لکھیں۔ وہ زیادہ تر رباعیاں ہی کہتے تھے۔ ان کی اردو رباعیات کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ صادقین کی دو پنجابی رباعیاں پیش ہیں …؎
اے ہاری دے ، مزدور دے اوزار دے ناں
شاعر دے قلم، حُر دی اے تلوار دے ناں
لکھ دتی اے ایس پردے وچ ایہہ وی مورت
ایس شہر دی ہر سانولی مٹیار دے ناں
٭…٭…٭
تختی تے اسیں پھل کھلارن آئے
ابجد دے اسیں دیوے جلاون آئے
اس شہر نوں اللہ دی نصرت دے اسیں
خطاطیاں کر کر کے سجاون آئے
صادقین نے اردو رباعیات کی کتاب شائع کی جس کا نام انہوں نے ’’بیاض صادقینی‘‘ رکھا۔ ان کے ہر کام میں انفرادیت ہوتی تھی۔ بیاض صادقینی پر یہ جملہ چھپا ہے ’’بعونِ خدائے مکین و مکان و بفضلِ خدائے زمین و زمان‘‘ ان رباعیات کی خطاطی انہوں نے خود کی، قیمت چھپی تھی۔ پانچ سو پیسے۔
صادقین کی رباعی ملاحظہ فرمائیں
صحرا سے چلا، وادی میں دل شاد کیا
میں نے تو کوئی لمحہ نہ برباد کیا
وادی کے حسینوں سے ملاقات سے قبل
صحرا کے حسینوں کو بہت یاد کیا
صادقین 30جون 1920ء کو امروہہ ضلع مراد آباد میں پیدا ہوئے اور 10 فروری 1987ء میںوفات پا گئے۔ آپ کی تدفین سخی حسن قبرستان کراچی میں ہوئی۔
پاکستان کا ڈوڈل صادقین سے منسوب
Jul 19, 2017