قانون، آئین و عدالتوں کے ماہرین اور بعض سیاسی سیانے بھی بیانات دے رہے ہیں بلکہ اعلانات فرما رہے ہیں کہ وزیراعظم کبھی بھی پانامہ شکنجوں سے بچ نہیں پائیں گے۔ انہیں ہر صورت میں جانا ہی پڑے گا۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین کہتے ہیں کہ ’’جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ کے نئے پانچ رکنی بینچ میں اختلافی نوٹ دینے والے دونوں ججز شامل ہوں گے تاہم وہ اپنی سابقہ رائے سے ہٹ نہیں سکتے۔ اگر دیگر تین ججز میں سے کسی ایک جج نے بھی وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دے دیا تو نواز شریف کی نااہلی کی کارروائی شروع کر دی جائے گی‘‘۔ سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی ہوئی تھی لیکن 184/3 کے تحت سپریم کورٹ نے اس معاملے کو خود لے لیا۔ صادق اور امین ہونا ہمارے آئین کا تقاضا ہے۔ قطری خط کو پانچوں ججوں نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے اب اس کیس میں نواز شریف کے فرار کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے‘‘۔ ن لیگیوں کو اب سوچنا یہ ہے کہ اگر نواز شریف نااہل ہو کر گھر چلے جاتے ہیں تو ان کے جانے کے بعد کیا ہو گا۔
ایک باخبر کالم نگار نے ’’متبادل وزیراعظم چودھری نثار؟‘‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھ مارا ہے۔ مادام مریم نواز کو الیکشن لڑانے جتوانے وزیراعظم بنانے اور مسلم لیگ ن کی صدارت تک سونپنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ احسن اقبال کی وزیراعظم سے طویل و مسلسل ملاقاتوں کے بڑے بڑے مطالب نکالے جا رہے ہیں۔ کئی افوائیں زیرگردش ہیں۔ چودھری نثار، مریم نواز، شہاز و حمزہ شہاز، اسحق ڈار، احسن اقبال، راجہ جاوید اخلاص، سعد رفیق، خواجہ آصف، عبدالقادر بلوچ کئی نام لئے جا رہے ہیں اور ان میں مریم نواز کا نام نمایاں اور بظاہر قابل قبول بھی لگ رہا ہے۔ محترمہ مریم نواز بارعب اور باہمت بی بی لگتی ہیں اس کے سوا ان کی تعریف اور تعارف صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کی بیٹی ہیں۔
معروف کالم نگار محمد اسلم خان نے 30 جون 2017ء کے اپنے کالم چوپال میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو پانامہ مقدمے کے فیصلے کا منتظر اور وزارتِ عظمیٰ کا خاموش خواہشمند شو کیا ہے جبکہ چودھری نثار کا کہنا ہے کہ عزت کے بغیر عہدے کسی لعنت سے کم نہیں ہوتے۔ موصوف کالم نگار ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’چودھری نثار پانامہ مقدمے کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ اس کڑے وقت میں ہماری اخلاقی روایات کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے دوست اور رہنما جناب نواز شریف کے دفاع میں پیش پیش ہوتے‘‘۔ اب بھی وقت ہے چودھری نثار ان پانامہ پانی پت لڑائیوں میں نواز شریف کا سجا بازو اور سچا سپاہی بن کر اتنا شور شرابہ کریں کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی، انہیں چاہیے کہ وہ بالکل خاموش نہ رہیں اور اپنی ’’اخلاقی روایات‘‘ کے تقاضوں کو سمجھیں دانیال، طلال و نہال کی طرح۔ مجھے کسی نے بتایا کہ نہال ہاشمی جی نے اپنی کسی تقریر میں یہ بھی فرمایا کہ نواز شریف اگر کسی اور ملک میں ہوتے تو ان کی پوجا کی جاتی۔ میرے محترم محمد اسلم خان صاحب! سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، کچھ ایسے بھی سر پھرے ہوتے ہیں جو اپنی ساکھ اور سیاسی قد کاٹھ دیکھتے سوچتے ہیں اور کسی کے کالے کرتوتوں کا لک اپنے منہ نہیں ملتے۔ بس کردار ہی انسان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ کرتوت ہی بندے کو ڈبوتے ہیں اور اپنے کرتوت ہی ڈولتی کشتی پار لگاتے ہیں۔ میں نے شاید ہی کبھی چودھری نثار سے ہاتھ بھی ملایا ہو لیکن ان کے بارے میں رائے اچھی ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ چودھری نثار کی شہرت اچھی ہے۔ میں نے کئی جیالوں اور عمران کے متوالوں سے سنا کہ ساری نون سیاستوں میں چودھری نثار سب سے بہتر ہیں کیونکہ وہ درباری ہیں نہ خوشامدی اور نہ ہی خوشامد پسند۔
مسلم لیگ ن اندر سے کھوکھلی ہو رہی ہے کیونکہ قیادت کو اپنی پڑی ہے انہیں فرصت ہی نہیں ہے۔ لیگی رہنماؤں کے اندرونی اختلافات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، گروپ بندی اور انتشار ہی انتشار ہے۔ پارٹی کے اندر کئی پارٹیاں ہیں۔ ہر حلقے میں اندرونی سازشیں ننگی ناچ رہی ہیں۔ اگر یہ کھچڑیاں پکتی رہیں اور اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ بجتا رہا تو ’’ن‘‘ کو ’’ق‘‘ بننے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ نواز شریف کے کئی متوالے پی ٹی آئی کیلئے پر تول رہے ہیں۔ پانامہ تلواریں سر پر لٹک رہی ہیں اور نااہلی کی گھنٹیاں صبح شام ٹن ٹن بجتی ہیں۔ یہ حالات و معاملات شریفوں کے لئے کسی سو نامی طوفان سے کم نہیں ہیں۔ نواز شریف اپنے آپ کو نہ بھی بچا پائیں تو کم از کم وہ اپنی مسلم لیگ کو ضرور بچا سکتے ہیں۔ اگر وہ دانشمندی اور ذہانت و دیانت سے متبادل قیادت کو آگے لے آئیں تب اور اس حوالے سے جو نام سامنے آ رہے ہیں ان میں چودھری نثار سے بہتر اور معقول و مقبول بندہ کوئی نہیں ہے لیکن لگتا نہیں ہے کہ نواز شریف مسلم لیگ کے بچاؤ اور دوام کیلئے یہ قربانی دے گزریں گے کیونکہ یہ بڑے دل گردے کا کام ہے اور نواز شریف بہت کمزور دل کے مالک ہیں۔ ان حالات میں اگر نواز شریف اپنی مریم نواز یا کسی اور شریف و شہباز نواز کو نون کا نمبردار نامزد کر دیتے ہیں تو ان کے مخالفین اسے پاؤں پہ کلہاڑی مارنا ہی کہیں گے اور ان کے چاہنے والے اسے نمبرداری اور اقربا پروری قرار دیں گے۔ پی پی کا ماحول اور مزاج بالکل ہی مختلف ہے جیالے زرداری کی جگہ لبرل بلاول کو بخوشی قبولتے ہیں لیکن نون کے سنجیدہ سرتاج و ظفر الحق جیسے رہنما مریم کو کیسے نون کی صدر یا ملک کا وزیراعظم مانیں گے۔؟ کیا ہی اچھا ہو کہ میرے پاکستان میں میرٹ جیت جائے، موروثی سیاست مر مٹ جائے اور جماعتوں کے اندر جمہوریت آ جائے، جب آپ کا عمل اور رویہ جمہوری ہو گا تب چار چاند لگیں گے جمہوریت کو اور جمہور کی جیت اور بھلائی ہو گی۔ اور اب ’’سب سے بہتر‘‘ چودھری نثار کیلئے بھی ایک نیک مشورہ ہے۔ یہ نہیں کہ وہ اس پانامہ سیاست کے کربلا میں اپنے دوست نواز شریف کے ساتھی بن جائیں۔ میں اپنا ہی ایک شعر چودھری نثار کی نذر کرتا ہوں کہ:-
بے بسوں کے سنگ ہو جا، کِبر سے دور کنارا کر
بن تو آس یتیموں کی بے چاروں کا چارہ کر
اگلا وزیراعظم کون…؟
Jul 19, 2017