قوموں کی تاریخ کی بات کیا کرنی، اپنی قومی تاریخ میں اتنی بے شعور، بے سمت اور بے صبری سیاست، قیادت اور صحافت کی نظیربھی نہیں ملے گی۔ لیڈرشپ نے اگربے حوصلگی کے آگے ہتھیارڈال دئیے تھے تو عمومی صحافت بھی اس بے حوصلگی میں اول فول لکھنے کو مرچ مصالہ لگا کر اور اپنے لایعنی تبصروں سے مزین کرکے عوام کے اعصاب پر مسلسل حملہ آور ہوتی رہی۔
سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں جے آئی ٹی بنائی، اس کی رپورٹ آئی اس پر فریقین کے مؤقف کیلئے ایک ہفتے کے بعد سماعت کرنے کا شیڈول بھی سامنے آگیا۔ شیڈول کے مطابق سماعت شروع ہوئی مگرپچھلے ہفتہ عشرہ میں واہموں، وسوسوں، الزامات، بہتان بازی، کردارکشی، ذاتی خواہشات کیلئے گالیوں، دھمکیوں کی جو زبان استعمال ہوئی سیاسی مخالفت نے پستی کی جن حدوں کو چھوا، صحافتی اقدار میں ذمہ داری کی جس طرح بے کفن نعش ٹیلی ویژن کی سکرین پر قابض ہوکر اہل وطن کا تمسخراڑاتی رہی، یہ کرئہ ارض پر اور کہیں نظرنہیں آئیگا۔ سنسنی خیزی نے پہلے ہی ایک ہیجان برپا کر رکھا تھا، اس پر اس نوع کی اپروچ کو شاید ملک وملت کے کسی شعبہ میں بھی جائز قرارنہ دیا جائے اور اپنی اثرپذیری کے حوالے سے صفرجمع صفر برابرصفر سے زیادہ کارآمد ثابت ہونے سے عاری ہی رہے۔ اس بات کامضبوط حوالہ بن چکی ہے کہ ہم بطور قوم نامعقولیت بلکہ حماقت کے یرغمال بن چکے ہیں اور اس حماقت یا نامعقولیت کے یرغمالی چنگل سے نجات کے لئے تودانا و بینا نظرنہیں آرہا نہ ہی کوئی احمق اپنی حماقت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے اشارے دے رہا ہے جس کے سبب بے مقصد شورشرابا برپا کرنیوالے اپنے اپنے مفاد کے زیراثریا اپنی اپنی خواہشات کی غلامی میں رواداری، برداشت اور معقولیت کی ساری حدوں کو توڑکردشمنی کے سے انداز میں ایک دوسرے کے مدمقابل ڈٹے رہے۔ سچے اور جھوٹے کی پہچان ختم ہوگئی سچ اور جھوٹ ایک ہی سکرین پر نمودار ہوتے رہے۔
کسی بھی عاقل بالغ نے یہی کام اگراس کا کرنا بہت ضروری ہوگیا تھا، کرنے کیلئے اسی راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستے کا نہ سوچا۔ حالانکہ ایسا ممکن تھا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کردہ جے آئی ٹی کی بغیرکسی دباؤ اور ڈراوے کے بروقت رپورٹ جمع کرانے کو فریقین اس رپورٹ لکھنے سے پہلے سراہ رہے تھے۔
وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کا وہ ٹویٹ باربار دکھایا اور پڑھ کر سنایا گیا جو وہ بند رپورٹ کے سپریم کورٹ میں لے جانے پر اس پر لکھے گئے لفظ Evidenceکے حوالے سے تھا اور جس میں مریم نواز نے کہا تھا ہمارے مخالف کہتے تھے کہ ثبوت نہیں دئیے جارہے ہیں، وہ اب دیکھ لیں ثبوتوں کی ٹرالی جارہی ہے۔ انکے مؤقف میں تبدیلی تورپورٹ کے مندرجات سامنے آنے پر آئی، اب اگرجے آئی ٹی بنانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنی فتح قرار دینے اور مٹھایاں بانٹنے، کھانے اور کھلانے والے پرجوش وزراء کے وہ بیانات، اعلانات اور مسکراہٹوں کا موازنہ انکے جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد اسے قصائی کی دکان قرار دینے، اس کو گالیوں دھمکیوں سے ردی کی ٹوکری میں پھینکنے اور مستردکرنے کے اعلانات کو بلاتبصرہ بابار بار دکھا کر اس سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا جو کسی بھی دوسرے شورشرابے سے ممکن نہیں تھا۔
مثلاً حکمران خاندان کیخلاف جے آئی ٹی کی ہر فائنڈنگ کے بعد مریم نواز شریف کے ’’یہ ہے ثبوتوں کی ٹرالی‘‘ والی ٹویٹ ابلاغ کے حوالے سے بہت مؤثر ثابت ہوئی۔ اس قسم کی صحافت سے کتنا نقصان ہوتا ہے، اس کیلئے مجھے روزنامہ امروز میں چھپنے والی وہ خبربہت مناسب معلوم ہوتی ہے جس کی سرخی تھی ’’پنجاب یونیورسٹی میں بی اے کے امتحان میں اول آنیوالی طالبہ دو مضامین میں فیل ہے‘‘ اور پھرگزٹ کے صفحہ اول پر جہاں اول آنیوالی طالبہ کے رول نمبر، نام، حاصل کردہ نمبروں اور پھر پوزیشن کی تفصیل تھی۔ اسکی فوٹو یا عکس کے ساتھ ربوہ ڈگری کالج کی اس طالبہ کے کالج میں اسی رول نمبر کے آگے دومضامین میں فیل ہونے کی فوٹویا عکس ساتھ ساتھ تھا اور پھر اگلے روزیونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات اور پبلک ریلیشنز افسر تردید کرانے کیلئے اخبار کے ایڈیٹر کی منتیں کررہے تھے اور ایڈیٹرکہہ رہے تھے دونوں ثبوت آپکے گزٹ سے لئے ہیں، کیسے تردید کریں اور وہ اپنا سا منہ لے کرچلے گئے تھے۔
دوسری مثال جو روزنامہ مشرق نے قائم کی جب معروف شاعرجوش کے انتقال پر انکی مدح میں ایک شاعر کی نظم کا ایک شعرشائع کیا …؎
تو جوش سے عظیم سخنور کو کھا گئی
خوش ہو زمین آج تیرا پیٹ بھر گیا!
اس شعر کے ساتھ اسی شاعرکی جوش صاحب کے بارے میں ایک پہلے لکھی ہوئی نظم کا شعرشائع کردیا گیا۔ ’’یادوں کی بارات کا شاعر، ننگے احسانات کا شاعر‘‘اور اسکے اوپر بلاتبصرہ لکھ دیا گیا: شاعرجو اب خود بھی مرحوم ہوچکا ہے، اپنے بہت ہی قریبی دوست کے پاس آیا جو اخبار کا ایڈیٹرتھا اور سٹ پٹایا کہ میرا بیڑہ غرق کردیا گیا ہے۔
تیسرا حوالہ آغا شورش کاشمیری کا ہے جب میں نوائے وقت گوجرانوالہ کے نامہ نگار اعجاز میر کے ساتھ ان کا حال پوچھنے میوہسپتال گیا اور انکے مزاج اور انداز کی اثر پذیری کے ساتھ صرف اتنا کہا کہ تضاد کو ختم کردیں توبہت بڑی خدمت ہوگی۔ بپھرے شیرکی طرح سے اپنے بسترسے اٹھے اور مجھ جونیئرپر حملہ آورہوگئے، دھیان سے بات کرو، میرا کوئی تضاد ہے توسامنے لائو۔ میں نے آغا صاحب کے بے جا ردعمل پر غصہ کرنا اور وہاں سے واک آؤٹ کرنے کی بجائے بڑے تحمل سے انکی ایک نظم سنائی جو خواجہ رفیق کے انتقال پر ان کی میت کی تصویر چٹان کے سرورق پر شائع کرکے وصیت کے عنوان سے لکھی تھی۔ جوں جوں میں نظم پڑھتا آغا صاحب کا غصہ اس وجہ سے دورہورہا تھا کہ مجھے ان کی پوری نظم یاد ہے، آخری شعرتھا …؎
وصیت کررہا ہوں آخری مسعود شورش کو
میرے بیٹے یہ ہے پنجاب اس کو چھوڑ جانا تم!
میں چونکہ دلیل اور ثبوت کے ساتھ بات کررہا تھا، اس لئے غصہ میں آکر اپنے مؤقف کو کیوں کمزور کرتا۔ میں نے نظم سنانے کے بعد کہا اس شمارے کے وسط میں آپ کی ایک اور نظم ہے۔ کہنے لگے وہ کیا ہے۔ میں نے کہا اس کا آخری شعرمیں سناؤں گا۔ بولے سنائو، شعرپڑھا توآغا صاحب نے جوش سے مجھے گلے لگا لیا اور نوائے وقت میں سب سے زیادہ ذہین ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا اور نظامی صاحب سے ازاں بعد متعدد بار یہ کہا کہ تمہارے دفتر میں خالد سب سے زیادہ ذہین ہے، شعرتھا۔ اس شمارے میں اندر لکھی ہوئی نظم کا آخری شعر …؎
شورش اپنی بزدلانہ حرکتوں کے باوجود
میری امیدوں کا محور خطۂ پنجاب ہے
مجھے موجودہ قیادت سے نہ شورش کاشمیری کی دانائی وبینائی کی توقع ہے اور نہ ہی عالی ظرفی کی مگر صحافت اور سیاست کو ذمہ داری یاد تو کرائی جاسکتی ہے۔
سیاست و قیادت کی ذمہ داری
Jul 19, 2017