وہ جہاں جاتے یونان ان کے ساتھ ہوتا۔ یہ کسی آدمی کا نام ہے۔ یونان ایک ملک ہے جہاں علم و ادب کا فروغ ایک قومی روایت تھی۔ بھول بھی جاتے تو دوست یاد کرا دیتے تھے۔ وہ یونانی ادب کے حافظ تھے اور یہ حوالہ ان کے ساتھ خاص ہو گیا تھا۔ وہ بے پناہ ادیب تھے ایسی شاندار نثر لکھنے پر کم کم لوگ قادر ہوتے ہیں۔ وہ نثر میں بھی ’’قادر الکلام‘‘ تھے۔ دوستوں کی محفل میں زندہ تر انسان تھے۔ ایسی گپ لگاتے کہ ہر ایک کے اندر سرخوشی کا کوئی دروازہ کھل جاتا جو اس دروازے کے اندر جانے کی کوشش کر لیتا تو وہ کسی گمشدہ جنت میں پہنچ جاتا۔
ہمیں ادبی تعلق کے ساتھ دوستی کا شرف حاصل تھا۔ وہ سینئر تھے بہت سینئر یہ سینئر بھی کئی معنوں میں ہے مگر لگتا نہ تھا ۔وہ اتنی جلد بے تکلف ہوتے تھے کہ بندہ سوچتا ہی رہ جاتا۔ وہ دوستی کے سارے دروازوں سے داخل ہونا جانتے تھے۔ دوسری دفعہ اسی دروازے سے داخل ہونے کے بعد لگتا کہ ہم کسی نئے جہان میں آ گئے ہیں۔
وہ ہمہ جہت انسان تھے، ہر طرح کی گفتگو کی آرزو ان کے ساتھ ساتھ ہوتی۔ آدمی ان کے پاس کبھی تھکتا نہ تھا کبھی بور نہ ہوتا تھا وہ کئی راستوں والی منزل کی طرح تھے۔ ہم کبھی منزل پر نہ پہنچے۔ ان کے ساتھ آدمی کسی منزل پر پہنچنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ بس راستوں کے مزید طویل ہونے کی خواہش ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ بہت محبت کرنے والے آدمی تھے مگر کبھی ایسا نہ تھا کہ وہ محبت کر رہے ہیں وہ محبت ہی محبت تھے، وہ جب دیکھتے تو محبت سے دیکھتے جب بات کرتے تو محبت سے کرتے۔
یونان کی بات کو دوستوں نے ان کا تکیہ کلام بنا دیا تھا، مگر ان سے بات کرکے کوئی بھی یونان کی سیر کر آتا تھا۔ میں نے کئی بار ان سے بہت لمبی بات چیت کی۔ مجھے تو وہ کبھی یونان لے کے نہ گئے تھے۔ وہ یونان گئے بھی ہوتے تو مجھے دیکھتے ہی ساتھ لے جاتے۔ بڑی بھرپور گفتگو کرنے والے آدمی تھے۔ ہلکی پھلکی بات چیت کرنے کا ہنر بھی ان کے پاس تھا۔
ایک طویل رفاقت میں بھی وہ کبھی اپنی راہ سے نہ بھٹکتے۔ کبھی کسی کو پیچھے چھوڑ کے نہ گئے۔ وہ رابطوں کے سارے واسطوں سے واقف تھے۔ مشکل آدمی لگتے تھے مگر بہت آسان آدمی تھے، آسان اور مشکل کے درمیان کوئی علاقہ ہے وہاں رہنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
خوہ بڑے پڑھے لکھے آدمی تھے۔ کئی کتابیں لکھیں۔ بھابھی عقیل روبی نے اس کالم کے لئے بہت تعاون کیا۔ میں ذاتی طور پر ان کا شکر گزار ہوں۔ ’’آدھی صدی کا خواب‘‘ ’’کھرے کھوٹے‘‘ ’’علم و دانش کے معمار‘‘ ’’مجھے تو حیران کر گیا وہ‘‘ ’’چتاور کتھا‘‘’’چوتھی دنیا‘‘، ’’جنگل کتھا‘‘، ساڑھے تین دن کی زندگی‘‘ اس کے علاوہ بھی اُن کی کچھ کتابیں ہیں۔
٭……٭……٭
سیالکوٹ سے کچھ دور ایک گائوں ہے چونڈہ۔ جو 65ء کی جنگ ستمبر کا محاذ تھا۔ وہاں ایک مختلف اور ممتاز خاتون رہتی ہے۔ اس سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ اس کی گفتگو بہت اچھی اور تخلیقی ہوتی ہے۔
کبھی کبھی اُن سے گفتگو ہو پاتی ہے۔ و ہ حیران کر دیتی ہیں۔ ورنہ ہمیں زیادہ تر پریشان کرنے والے ہی ملتے ہیں۔
قائد اعظم کے لئے تو بہت شاعروں نے لکھا۔ شکیلہ قریشی نے بھی ایک نظم لکھی ہے مگر انفرادیت یہ ہے کہ اس نے مادر ملت فاطمہ جناح کے لئے ایک نظم لکھی ہے۔ وہ بہت بڑی خاتون تھیں۔ یہ نظم بھی بہت بڑی ہے۔ میری خواہش ہے آپ بھی یہ نظم پڑھیں۔
اخلاص کے سروپ میں
تو مامتا کا روپ ہے
چھائوں ہے کہ دھوپ ہے
تو مامتا کا روپ ہے
ناموس کی بنا
اے فاطمہ جناح
وطن کی تشکیل کے
نکتۂ آغاز میں
قوم کی تکمیل کے
ہر ایک حرف راز سے
لمحۂ قلیل کے
معنیِ دراز میں
تو منظر انا
اے فاطمہ جناح
گھر بہن بھائی کا
دیس کی اساس ہے
جذبۂ خدائی کا
نغمۂ سپاس ہے
کیفیت صہبائی کا
عجیب دست راس ہے
ہرلب پہ ہے ثناء
اے فاطمہ جناح
روش تقدیس میں
فاطمہ بلند ہے
کردار کی سلیس میں
ہوائوں پہ کمند ہے
فطرتِ نفیس میں
ساگر سربلند ہے
تو حسن استغنا
اے فاطمہ جناح
مائیں دوستوں جیسی ہوتی ہیں مگر فاطمہ جناح…
Jul 19, 2018