پیارے قارئین....

Jul 19, 2018

پاکستان تیزی سے ایک ایسا ملک بن رہا ہے جہاں میڈیا کیلئے حالات نامہربان اور ماحول کچھ زیادہ خوشگوار نہیں۔ عالمی سطح پر پرنٹ انڈسٹری آخری سانسیں لے رہی ہے۔ پاکستان میں بھی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں۔ ایک وسیع اور متحرک و فعال پریس جو ہمارا نگران تھا اور ہمیں عزیز تھا، فنڈز کی قدغن کے باعث آج چراغ سحری ہے۔ سابق حکومت کے آخری تین مہینوں میں صرف، گورنمنٹ کے ایڈورٹائزنگ سیکٹر میں 70 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ کمرشل ایڈورٹائزنگ کی صورت حال بھی لگ بھگ کچھ ایسی ہی رہی۔
موجودہ الیکشن کا موسم اور اکانومی کچھ اتنی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں اب صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اور جہاں 2013ءکے الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کی ایڈورٹائزنگ ٹیموں میں اخبارات کے صفحہ اول اور بیک پیجز پر نمایاں جگہ کے حصول کیلئے سخت مقابلہ تھا۔ آج اخبارات نے اپنے اشتہارات کے نرخوں میں خصوصی کمی کر رکھی ہے، اس کے باوجود کئی کئی دنوں تک ایڈورٹائزنگ ریونیو کی شکل نظر نہیں آتی۔ نہ الیکشن مہم کی صورت نہ حکومت اور نہ کمرشل کلائنٹس کی طرف سے۔ اخباری صنعت ہی کو نہیں، اخبار کے قارئین کو بھی اس پر غور کرنا چاہئے کہ آخر اس بے یقینی کی وجوہات کیا ہیں؟
کاروباری ایشوز کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ بعض پرنٹ میڈیا قارئین تک اپنا اخبار پہنچانے میں رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اخبار کی قیمت ادا کرنے کے باوجود ہاکر قارئین تک اخبار پہنچانے سے قاصر ہے۔ الحمدللہ! نوائے وقت اور دی نیشن کے قارئین کی طرف سے فی الحال یہ شکایات موصول نہیں ہوئیں۔ کچھ ٹی وی چینلز کو ملک بھر میں اپنی نشریات کی بندش کا سامنا رہا جبکہ چند ٹی وی سکرینوں تک ناظرین کو بلارکاوٹ رسائی حاصل رہی۔ پروفیشنل میڈیا انڈسٹری جس کا اوڑھنا بچھونا ہی جرنلزم تھا، اس کو کھمبیوں کی طرح منظرعام پر آنے والے ایسے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کا سامنا رہا جن کے پاس سرمائے کی کوئی کمی نہ تھی اور خسارے کی صورت میں اسے پورا کرنے کیلئے انکے پاس آئیل انڈسٹریز، کالجز وغیرہ کی صورت میں متبادل ذرائع بھی موجود تھے۔ آج وہ سائیڈ بزنس کے طور پر چینلز و اخبارات کو چلا رہے ہیں۔ ان کو ادائیگیاں نہ ہونے کا خو ف ہے نہ واجب الادا بقایا جات بڑھنے کا کوئی ڈر ہے۔ ایڈورٹائزنگ کیلئے دیر سے ادائیگی کی صورت میں حکومتی سرکلر ڈیبٹ کے باعث انہیں کسی مشکل کا سامنا نہیں، نہ ان کو ویج بورڈ پر عمل درآمد کی پریشانی ہے۔ سوال ہے آخر ہمارا میڈیا کدھر جا رہا ہے؟ جینوئن میڈیا ہاﺅسز کو مخصوص مفادات کے تحت مالی امور کے حوالے سے نئی آزمائش میں ڈال کر اسے گھیرنے اور اس کے کس بل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں کیا ہمارے قارئین ، ناظرین اور اشتہاری پارٹیاں ہمیں سپورٹ کریں گی؟۔ کیا وہ پروفیشنل جرنلزم کو روشن اور تابناک بنانے اور اسکی سابقہ ساکھ اور پوزیشن کی بحالی میں اپنا حصہ ڈالیں گے تاکہ اس کی غیر جانبداری کی بحالی ممکن ہو اور اس کے نام پرچند کالی بھیڑوں سے لگا بدنامی کا دھبہ صاف ہو۔ آپ اس کیلئے تیار ہیں؟پیارے قارئین....ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ ہمیں آپ کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں