شہادتیں کسی بھی غیور قوم کا سہرا ہوتی ہیں۔ وردی کی شہادت، سرحدوں پہ دشمنوں سے مقابلہ کرکے حاصل ہونے والی شہادت، دیر، مہمند ایجنسی، باجوڑ میںمائن پھٹ جانے پہ یا وہاں وردی میں کالے بوٹ پہنے، سینے پہ گولیوں کی بیلٹ باندھے، ہاتھوں میں بندوقیں پکڑے اور سینہ تان کر آگے بڑھتے ہوئے دشمنوں کو دہلا دینے والوں ٹاپوں کے ساتھ بھاگتے ہوئے جو فوجی افسر اور جوان شہادت حاصل کرتے ہیں، ہمیں فخرہوتاہے ان پر، اپنے وطن پر اور ان ماﺅں پر جو ان سپوتوں کو پال پوس کر جوان کرکے وطن کی مٹی کے حوالے کردیتی ہیں۔ ہاں ہم فخر کرتے ہیں ۔ اعتزاز شہید پر جو دہشت گرد کو پکڑ کر اپنی جان اس لیے لٹا دیتاہے تاکہ سینکڑوں مائیں اپنی گود اجڑنے کا ماتم نہ کریں۔ ہمیں فخر ہے کہ کیپٹن فہد کی شہادت پر جو جوانمردی سے لڑا، ہمیں فخر ہے کرنل سلمان، کیپٹن جنید اور گلیشئر پہ مشکل ترین جنگ لڑنے والے شہیدوں پر، لیکن ہم کیسے فخر کریں آر اے بازار میں ہونے والی دہشت گردی میں حاصل ہونے والی شہادتوں پہ،ہم کیسے فخر کریں؟ باچاخان یونیورسٹی میں ہونے والی شہادتوں پر، ایسی شہادتوںمیں تو صرف اہل خانہ تمام عمر ٹرپتے رہ جاتے ہیں اور معاشرہ پھر سے اپنی بے حسی کے راستے پہ چل پڑتاہے۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا میںکچھ کہا، کچھ لکھا، کچھ سیمینار کئے اورکچھ تعزیتی ریفرنسز منعقد ہوئے اور پھرپس پردہ سکرین سے اوجھل ہوگئے۔ اسی طرح دوستو ہم کیسے فخر کریں مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابی جلسہ میں دہشت گردی میں ہونے والی 200سے زائد شہادتوں کا اس میں موجود ہر شخص سراج رئیسانی تھا، کوئی اس کے جذبے سے پیار کرتا تھا، کوئی اس کے منشور کا حامی تھا، کوئی اس کا دوست تھا، کوئی بھائی، کوئی سراج رئیسانی کے ساتھ مل کر وطن کےلئے امن کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔ کوئی وہاں کی کرپشن کو ختم کرنے کے منصوبوں پر عمل کرنا چاہتا تھا۔ کوئی نظریہ پاکستان کو لے کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام کی تقدیر بدلنے کا خواہاں تھا۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ ان سب سے سراج رئیسانی شہید کا دامن پکڑ رکھا تھا، ظالموں نے رہبر کو شہید تو کردیا مگر اس کی وہ پرچھائیاں اور عکس جو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کے ذہنوں اور آنکھوں میں نظرآرہے تھے ان کو وہ کیسے ظلمت کدے کا شکار کریں گے؟ وہاں تو ہر چہرہ سراج رئیسانی شہید جیسے شمس وقمر کی کرنوں سے منور تھا۔ دشمنوں کو جان لینا چاہیے کہ آج جو وردی میں ہے یا جو وردی میں نہیں ہے سب اس وطن کے مجاہد بن چکے ، پچھلے عشروں سے جو اس وطن عظیم کے ساتھ کھلواڑ ہورہاتھا آج کی نسل آج کا باشندہ آج کا محب وطن اب وہ نہیں ہونے دے گا۔
بنوں میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار قومی اسمبلی اکرم درانی کے انتخابی قافلے کو بم کا نشانہ بنایاگیا جس میں 5شہادتیں اور متعدد زخمی ہوئے، یہ صرف ایک ڈراوا ہے دہشت گردی کا سانپ پھن پھیلا کر محب وطن لوگوں اور ان سیاسی پارٹیوں کے عہدیداروں کو خوفزدہ کررہا ہے۔ مگر جلوس رکے نہیں، انتخابی مہم ختم نہیں ہوئی، ووٹ مانگنے کےلئے گلی کوچہ بازار میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔
جب ہارون بلور کو شہید کیاگیا تو عوام کا جوش وجذبہ اسی شدت کے ساتھ بلند ہوا کہ لگتا تھا اب کوئی طوفان ان کے جذبہ محب الوطنی کو نہیں روک سکے گا اس لیے اتنے بڑے سانحوں پر آج بھی ہماری قوم پر امید ہے، مورخین لکھتے ہیں عظیم قوموں کی عظیم کامیابیوں کی بنیاد اس کے جانثاروں کے جسموں کے ٹکڑوں سے مضبوط ہوتی اوران قوموں کو ترقی وترویج ملنے کے ساتھ ساتھ قوم کی آبیاری میںبے شمار بے گناہ عوام کا خون شامل ہوتاہے۔ تومورخین کی یہ بات ہمارے ملک میں عشرہ سے زیادہ عرصے میں ہونے والی شہادتوں نے سچ کر دکھائی ہے۔ اے پی ایس پشاور کی شہادتیں ہم بھول گئے ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں اس سانحے کے بعد بڑا حادثہ مستونگ کا ہوا، تو ہماری آنکھوں میں وہی مناظر وہی ایمبولینسوں کے ہارن، وہی والدین کا ماتم، ایک ہی خاندان کے13افراد کے گھروں سے جو آہ وفغاں اٹھی ہوگی توزمین تا فلک ہر چیز لرز کے رہ گئی ہوگی۔ جوان موت تو ویسے بھی ماﺅں کے دل چیر دیتی ہے کسی بھی حادثے کاشکارایک فرد نہیں ہوتا بلکہ اس کا پورا خاندان مٹی کی دیوار پر بارش پڑنے کی طرح سے ڈھ جاتاہے۔
وطن تو ہمیشہ سے قربانیاں مانگتا ہے اور اس سے محبت کرنے والے نڈر ہوکر قربانی دیتے بھی ہیں مگر اس کے بعد کیا؟ کیا قربانی رائیگاں جانے کےلئے دی جاتی ہے، کیا ایک جواں بیٹا اس لیے مرتاہے کہ اس کے والدین پر یہ زمین تنگ کردی جائے، کیا ایک باپ اس لیے شہید ہوتاہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اسے یتیم بچوں اور بیگم کو بھی بھلادیاجائے اور دنیا کے تھپیڑے کھانے کےلئے صحرا میں تنہا چھوڑ دیاجائے۔ توپھر ایسا کیوں ہوا ؟کہ سراج رئیسانی اور مستونگ کی بے گناہ عوام پہ جو ظلم ڈھایاگیا اس کو یکسر نظرانداز کردیاگیا، سراج رئیسانی اور ہارون بلور کیا صرف بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے بیٹے ہیں ؟کیا ان کا تعلق سندھ اور پنجاب کی مٹی سے نہیں تھا؟ کیا وہ وطنِ عظیم پاکستان کے فرزند نہ تھے؟ توپھرکیوں خاموش رہی دیگر صوبوں کے عوام ؟ اعلیٰ عہدیدار اپنی اپنی کارروائیوں میں مصروف رہے اور ٹی وی پرصرف چلادی گئی اس حادثے کی مذمت کی خبریا چند تعزیتی خبریں پرنٹ میڈیا پر۔ کیا جب آرمی پبلک سکول کاسانحہ ہوا تھا تو ہم اسی طرح سے خاموش رہے تھے؟ کیا ہم سانحوں کے عادی ہوچکے ہیں؟ یا ہمارے دلوں میں احساسات اور درد کے جذبات مردہ ہوچکے ہیں؟ اگر دو دن کےلئے اپنی الیکشن کی مہم کو روک دیتے اور تمام سیاسی اہلکار اور الیکشن لڑنے والے نامور لوگ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کا رخ کرتے تو بھی25جولائی کو تو آہی جانا تھا۔ وطن سے محبت کرنے والے لوگوں کی محبت اور قربانیوں کا شیرازہ مت بکھیریے۔ میڈیا کےلئے بھی لمحہ فکریہ یہ ہے کہ! اس نے معیار اور منشور کو وطن کی حرمت پہ قربان ہونے والوں کےلئے بلند مقام پہ لے جاناہے یا مارننگ شوز کی شوخیاں، ماڈل گرلز کے حسن اور اداﺅں کی روشنیاں، ٹاک شوز کی اخلاق سے گری ہوئی زبان طرازیاں اور الیکشن کی مہم کو۔ہمیں روکنا ہوگا ان شہادتوں کو جو دہشت گردی کے سانحوں میں ہمارے سینے چاک کرتی ہیں۔
جس کی جان ہتھیلی پر ہے
موت کا اس کو کیسا ڈر ہے