پاکستان چینلوں پر ہونے والے ٹاک شوز دیکھنے والے سے سوال کیا جائے اس وقت پاکستان کا اہم ترین قومی مسئلہ کیا ہے تو وہ بلاسوچے سمجھے جواب دے گا ”(ن) لیگ کے کارکن 13 جولائی کو ائر پورٹ کیوں نہیں پہنچے“ حالانکہ ان پروگراموں کے مرد خواتین اینکروں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو یہ نہ جانتا ہو کہ جوڑا پل یا بھٹہ چوک سے آگے جانا ناممکن تھا سوائے اس کے کہ اس سے آگے بڑھنے کی کوشش پولیس اور رینجرز سے تصادم کا باعث بنتا جیسا کہ بھٹہ چوک پہنچنے والے ایک جلوس کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ سے واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا اور اگر (ن) لیگ کے کارکن رکاوٹیں توڑنے کی کوشش کرتے تو اس کے نتیجے میں لاہور سمیت ہر جگہ تصادم سے حالات خراب ہوتے اور یہی اینکرز مذمتی پروگرام کرتے نظر آتے کہ ”اب جبکہ الیکشن میں چند روز رہ گئے ہیں (ن) لیگ کے کارکنوں نے الیکشن کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہنگامہ آرائی کی۔ حالانکہ ان کو پتہ تھا گرفتار شدہ نواز شریف سے ملنے نہیں دیا جائے گا اور اب تو نوبت ایںجارسید کہ عام آدمی بھی بغیر سنے جان لیتا ہے کہ فلاں اینکر فلاں کی ڈفلی بجائے گا اور فلاں اینکر فلاں کے کپڑے ”اتارے گا، اہم قومی ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں اپنے لوگوں کی رہنمائی جو صحافت کا تصور تھا وہ خاصا بدلا جا چکا ہے۔
مستونگ کے سانحہ سے بڑا سانحہ میرے نزدیک یہ ہے کہ مستونگ میں میرے 149 پیاروں کی لاشیں گریں مگر پاکستانی میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے اس سانحہ کو ثانوی حیثیت دی ساری توجہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی آمد پر رہی اس کی نیوز ویلیو سے انکار نہیں کیا جا سکتا پاکستان میں کراچی سے جنوبی وزیرستان تک ہی نہیں دوسرے ممالک میں بھی اس لمحے کا بے چینی سے انتظار تھا کہ ان کے لاہور پہنچنے پر کیا ہو گا، تب ہی تو غیر ملکی صحافی بھی لندن سے ہمراہ آئے تاہم یہ تو طے تھا وہ خود گرفتاری دینے آ رہے تھے لاہور ائر پورٹ سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل لے جایا جائے گا حالانکہ انٹرپول کے ذریعہ لایا جاتا اور گرفتاری میں مزاحمت کی جاتی تب اس کی خبری اہمیت کچھ اور ہوتی، تب بھی 149 پیارے پاکستانیوں کا سرخ گلابوں جیسے معطر لہو میں شرابور ہو جانا اس سے بڑی خبر تھی میرا ہرگز مطلب نہیں میاں نواز شریف اور مریم نواز کی آمد کا بلیک آﺅٹ کر دیا جاتا لیکن اس تشویش کا اظہار کیا جاتا مستونگ میں کتنے شہید کتنے زخمی ہوئے۔ کتنے زخمی طبی امداد نہ ملنے سے داعی اجل ہو گئے۔ امدادی سرگرمیوں کی کیا صورت حال ہے، کتنے بچے یتیم، کتنی ہماری بہنیں، بیٹیاں بیوہ ہو گئیں، لیکن اس کا بلیک آﺅٹ کر دیا گیا پانچ دہائیوں سے میڈیا کا ادنیٰ سا حصہ ہونے کے باعث میں مستونگ کے ان دکھی بھائیوں سے شرمندہ ہوں جنہوں نے میڈیا کی بے حسی پر احتجاجی مظاہرہ کیا اس سانحہ عظیم کے اگلے روز میری نگاہیں اخبار میں یہ خبر تلاش کرتی رہ گئیںکوئی بڑا سیاسی لیڈر انہیں دلاسہ دینے پہنچ گیا ہے اس کی بجائے عمران خان کا بیان تھا ”نواز شریف کے استقبال کے لئے جانے والے بیوقوف گدھے ہیں“ بلاول زرداری کا بیان تھا ”مخلوط حکومت بنی تو زرداری وزیراعظم کیلئے پیپلز پارٹی کے امیدوار ہوں گے“ میاں شہباز شریف کا بیان تھا ”دھاندلی ہوئی تو الیکشن کے نتائج قبول نہیں کریں گے“ یہ اس ملک کی تقدیر بدلنے کے دعویدار لیڈروں کا حال ہے۔ اس کے برعکس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہ صرف اسی روز مستونگ پہنچ گئے اور غمزدہ لوگوں کی ڈھارس بندھائی، پشاور میں ہارون بلور کے جلسہ پر حملہ ہوا تو اس خطرہ کے باوجود دوسرا دھماکہ ہو سکتا ہے ہر خطرے کو پس پشت ڈال کر آرمی چیف ہی وہاں بھی پہنچے۔
مجھے تو اس پر بھی شرمندگی ہے کہ سراج رئیسانی شہید سے زندگی میں کیوں نہ مل سکا۔ آرمی چیف نے جسے ہیرو اور پاکستان کا سپاہی قرار دیا، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غور نے اس کی شخصیت سے یوں پردہ اٹھایا ”ملک دشمن سراج رئیسانی سے خوفزدہ تھے“ میں اس سے اس لئے ناآشنا رہا کہ اس نے کبھی اپنی حب الوطنی کا ڈھنڈوڑا نہیں پیٹا، اس نے بھارتی پرچم پر جوتیوں سمیت کھڑے ہو کر اور بھارتی پرچم کے رنگ کی جوتیاں پہن کر پاکستان کے ازلی دشمن بھارتی حکمرانوں اور ان کے ایجنٹوں کے سینوں پر برچھیاں تو چلائیں اس نے ایسے لمحات میں جب بلوچستا میں فراری کیمپ قائم تھے جب بعض علاقوں میں قومی ترانہ پڑھنا اور قومی پرچم لہرانا ناممکن ہو گیا تھا جب بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی این ڈی ایس امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں بلوچستان کو شورش زدہ علاقے بنانے پر تلے تھے اپنی گاڑی پر پاکستانی پرچم پینٹ کروا کر اور پاکستان کے بڑے جھنڈے تلے ریلی نکال کر دشمنوں کو کھلا پیغام دیا۔ پاکستان کی بقاءکی جنگ لڑنے کے لئے اس کے بیٹے موجود ہیں، مگر اس سب کی تصویریں شائع کروا کر کبھی شہرت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اگر ایسا شخص دشمن کے دلوں میں کانٹوں کی طرح نہیں کھٹکے گا تو پھر کونسا ان کی ذہنی اذیت کا باعث ہو سکتا ہے۔ مجھے تعجب نہیں ہوا بھارت میں انتہا پسند تنظیموں نے اس کی شہادت پر جشن منایا۔ بھارت میڈیا بھی اگرچہ قدرے محتاط رہا مگر اپنی خوشی چھپائے نہ چھپا سکا۔ بھارتی انتہا پسند سویتی تیورای نے ٹویٹ پر بکواس کی ”ریاست پاکستان کی حمایت یافتہ پارٹی کا لیڈر مارا گیا جس نے بھارت کی تذلیل کی تھی“ پاکستانیوں کے لئے تو سراج رئیسانی کی حب الوطنی کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی مگر یہ بھارت کی جانب سے بھی اس کے سچے پاکستانی ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے۔ پاکستان کے اینکروں کی اکثریت کو بھارتی آلہ کار منظور پشتین کے جمہوری حقوق نے تو بہت اضطراب کا شکار کیا اس کی تصویریں اور جلسے دکھا کر جمہوریت نوازی کے ڈرامے رچائے گئے مگر سراج رئیسانی کی پاکستان دوستی ، مادر وطن سے محبت اور اس پر خود کونچھاور کر دینے کے جذبات کی خبر ہی نہ ہو سکی کچھ سیاستدان تعزیت کے لئے گئے بھی تو کوئٹہ میں ہی سیاست بگھار کر آ گئے کسی کو مستونگ جانے کی توفیق نہ ہوئی۔
مستونگ، پشاور اور بنوں میں ہونے والے حملے میرے نزدیک دہشت گردی کی لہر نہیں۔ واقعات ہیں۔ الحمداللہ، پاک فوج، رینجرز، ایف سی اور پولیس کے جوانوں سے اپنی زندگی قربان کر کے دہشت گردی کے عفریت کو قابو کیا ہے دشمن ہر لمح گھاٹ میں ہو تو کوئی نہ کوئی موقع اسے مل جانا باعثِ حیرت نہیں، لیکن پاکستانی میڈیا میں یہ سوال اٹھانا کہ ”دہشت گردی کی کمر توڑ دی کے دعوے کہاں گئے“ کسی طور پر مناسب نہیں، کیا یہ اسی فوج پر طنز نہیں ہے جس کے ہزاروں جوانوں نے پاکستانی عوام کو دہشت گردی سے بچانے کیلئے اپنی جانیں قربان کی ہیں اور یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔ یقیناً دہشت گردی پر قابو پا یا گیا ہے مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے اس لئے یہ صرف فوج کی نہیں بلکہ پوری قوم کی بھی جنگ ہے۔
اسی طرح پوری قوم کوڈیموں کے لئے فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیناچاہئے یہ اس لئے ضروری ہے کے چیئرمین جماعت علی شاہ نے مجھے بتایا تھا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں عالمی بنک نے بھارت کی جانب سے ”اعتراض ہیں“ کے سرٹیفکیٹ سے شروع کر رکھا ہے اب سیدھی سی بات ہے بھارت نہ کبھی یہ سرٹیفکیٹ دے گا اور عالمی بنک قرضہ دے گا۔ اب قومی غیرت کا تقاضا ہے پاکستانی قوم بھارت اور عالمی بنک دونوں کو ٹھینگا دکھائے۔