”19جولائی یوم الحاق“ اورکشمیریوں کی قربانیاں

بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ڈی جی پولیس سیش پال وید نے پہلی بار کشمیریوں کے بھارتی فورسز کے ہاتھوں بڑھتے ہوئے قتل عام کو تسلیم کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ جنوری 2017ءسے لے کر جون 2018ءتک 106 کشمیری نوجوانوں کو مقابلوں میں قتل کیا گیا ہے تاہم سڑکوں پر دوران احتجاج بے دردی سے کی جانے والی براہ راست فائرنگ یا پیلٹ گن کے استعمال سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار یہ کہہ کر بھارتی افسر نے دینے سے انکار کر دیا کہ اس حوالے سے اس کے پاس معلومات نہیں۔
جب اس سے پوچھا گیا کہ مقابلوں میں مارے گئے کشمیری مقامی تھے یا کنٹرول لائن پار سے بھیجے گئے تھے کیونکہ ایسے ہر مقابلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں تعینات قابض بھارتی فوج کے کمانڈر مارے جانے والوں کو پاکستانی قرار دیتے رہے ہیں لیکن اس سوال پر بھی بھارتی پولیس افسر نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ البتہ آئندہ کے لئے ”لالی پاپ“ (جھانسہ) دیتے ہوئے کہا کہ سول آبادی کی اموات کو کم کرنے کے لئے اعلیٰ سطح پر لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں وہ فی الحال کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں۔
7 جولائی 2018ءکو بروز ہفتہ جس وقت سرینگر میں ‘ سیش پال وید کی بھارتی میڈیا سے گفتگو جاری تھی تو اس وقت میڈیا والوں کو موبائل فون پر خبر ملی کہ ضلع کو لگام کے علاقے ردوانی کے گا¶ں ہواڑہ میں بھارتی فوجیو نے آٹھویں جماعت کی طالبہ انجلی عندلیب سمیت تین افراد کو شہید کر دیا ہے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 15 سے زیادہ ہے۔ انجلی عندلیب کے علاوہ دیگر 2 کی شناخت شاکر احمد اور ارشاد احمد کے نام سے ہوئی۔
بھارتی فوج نے زخمیوں کو اٹھانے کے لئے ایمبولینس کو علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا جس کے بعد ہواڑہ گا¶ں کے نوجوانوں نے موٹر سائیکلوں پر تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے زخمیوں کو ہسپتال تک پہنچایا۔ زخمیوں میں اکثریت کی عمر 12 سے 15 سال تھی۔ بھارتی میڈیا کے نمائندوں نے جب خبر کی تصدیق کے لئے ڈی جی پولیس سے بات کی تو وہ جواب دئیے بنا اٹھ کر چلا گیا۔
میڈیا والے سرینگر پولیس ہیڈ کوارٹر سے باہر نکلے تو اس وقت تک کو لگام ضلع کے ایک گا¶ں میں کم عمر طالبہ سمیت تین کشمیریوں کی شہادت کی خبر پہنچ چکی تھی اور بطور احتجاج سری نگر کے لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج شروع کر چکے تھے۔
مقبوضہ کشمیر کے ہر ضلع میں آئے روز بے گناہ و معصوم نہتے کشمیریوں کا بہیمانہ قتل اب ایک معمول بن چکا ہے۔ کشمیریوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ بھارت کی غلامی میں زندگی گزارنے کو تیار نہیں۔ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں جبکہ بھارت فوج و طاقت کے زور پر انہیں اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے اوراس کے لئے وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ہر حربہ آزمائے چلا جا رہا ہے۔ جدید جمہوری دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی بھی ملک میں اس طرح کے مناظر دیکھنے کو نہیں ملے جس میں ریاستی پولیس یا سکیورٹی کے ادارے احتجاج پر قابو پانے میں ناکامی کا غصہ سڑکوں پر لگے غریب لوگوں کے ٹھیلوں اورہاتھ والی ریڑھیوں کو آگ لگا کر نکالیں۔
10 جولائی کو سری نگر میں قابض بھارتی فوج یہ بھی کر گزری۔ نہتے احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسانا‘ ان کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال‘ لاٹھیوں سے تشدد‘ کم عمر نوجوانوں کو انسانی ڈھال کے طور پر دوران احتجاج پتھرا¶ کرنے والوں کے سامنے جیپوں کی بونٹ پر باندھ کر بٹھانا‘ احتجاجیوں کو بکتر بند گاڑیوں تلے کچلنا‘ قابض بھارتی فوج اس طرح کے تمام ہتھکنڈے کشمیریوں کے خلاف بنا کسی شرمندگی کے کرتی چلی آ رہی ہے لیکن 10 جولائی کی شام سارا دن کشمیریوں کے خلاف لاٹھی چارج و آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کے باوجود کشمیریوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ سورج غروب ہونے کے باوجود جاری رہا تو بھارتی فوجیوں نے سڑک کنارے ٹھیلوں اور ہاتھ والی ریڑھیوں پر پٹرول چھڑک کر انہیں آگ لگا دی۔ ٹھیلے والے روتے بلکتے رہے‘ بھارتی فوجیوں نے کسی پر ترس نہیں کھایا۔ جلتی ریڑھیوں پر پانی ڈالنے کے لئے لوگ آگے بڑھے توا نہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ قابض بھارتی فوج ان کا فروٹ لوٹ لیتی۔ پھلوں کو ضائع کر دیتی تو شاید غریب ریڑھی مالکان کا اتنا نقصان نہ ہوتا۔ بھارت سے آزادی مانگنے والوں سے نفرت کا اظہار اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ قابض بھارتی فوج ان سے روزی کمانے کا ذریعہ ہی چھین لے۔
چند ماہ قبل کالج و یونیورسٹیوں کی طالبات کی راہ چلتے چٹیاں کاٹنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے خلاف بھارت کے اپنے اندر شدید احتجاج اور نیو دہلی میں تعینات مختلف مغربی ممالک کے سفارت کاروں اور سفیروں کی طرف سے سخت الفاظ میں مذمت کے بعد یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اس طرح کے مظالم پر بھارت کی فوج کو ڈوب مرنا چاہئے جس نے گزشتہ 70 برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں بے گناہوں کے قتل عام‘ آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو اغوا کر کے عقوبت خانوں میں ڈالنے‘ وہاں انہیں اذیت ناک تشدد کر کے قتل کرنے کے بعد گمنام قبروں میں اجتماعی طورپر دفن کرنے ‘کشمیری خواتین کو بطور جنگی ہتھیار فوجی بیرکوں میں اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنانے‘ کشمیریوں کے کاروباری مراکز کو لوٹنے ان کی املاک کو ڈائنامیٹ سے تباہ کرنے جیسے گھنا¶نے مظالم کا بازار گرم کر رکھا ہے تمام فسطائی ہتھکنڈے آزمانے کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کے سامنے بے بسی کے بعد اب گزشتہ 2 برسوں سے کم عمر کشمیری نوجوانوں کی جان سے کھیلنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ہر ایک یا 2دن گزرنے کے بعد 4 پانچ کشمیری بچوں کو شہید کرنے کا حربہ ان کے والدین و اہل خانہ کے لئے کس قدراذیت کا باعث ہے جس کا ادراک شاید ہم اپنی داخلی سیاست و مسائل میں مست پاکستانی ہرگز نہیں کر سکتے۔ ہمیں احساس ہی نہیں مقبوضہ کشمیر میں بسنے والوں پر کیا بیت رہی ہے۔ ہم ہر سال 19 جولائی کو کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا دن ضرور مناتے ہیں لیکن ہوم الحاق مناتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 19جولائی 1947ءکو سری نگرم یں سردار محمد ابراہیم کے گھر چودھری حامد اﷲ خان کی سربراہی میںمنعقد کئے گئے اجلاس کے دوران خواجہ غلام الدین وانی اور عبدالرحیم وانی نے جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے 59 سرکردہ لیڈران کی موجودگی میں جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی جو قرارداد پیش کی تھی کشمیری عوام آج تک الحاق کے لئے منظور کی گئی اس قرارداد کو نسل در نسل ایک عہد سمجھ کر نبھاتے چلے آرہے ہیں بھارت کی انسانیت سوز فسطایت اور اس پر عالمی بے حسی بھی انہیں اپنے عہد پر عمل سے نہیں رو سکی۔ یہ بھارت تھا جو اقوام متحدہ میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کر کے اس پر عمل درآمد سے مکر گیا کشمیری پیچھے ہٹنے کو تیار نیہں وہ الحاق پاکستان سے کم کچھ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو پھر ہم پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ صرف اخبارات میں مضامین کو کافی سمجھنے کی بجائے ہم کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے لئے دل و جان سے کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور انہیں یقین دلائیں کہ ہمیں ان کی قربانیوں کا احساس ہے۔

ای پیپر دی نیشن