ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو مارر ہا تھا اور خود ہی روتا بھی جارہا تھا ، کسی نے پوچھا تم اسکو مارتے ہوئے رو کیوں رہے ہو ؟ اس نے روتے ہوئے جواب دیا کہ مجھے اسوقت کا خیال آکر رونا آرہا ہے کہ جب یہ اٹھے گا تو مجھے مارےگا ۔ یہ صورتحال اسوقت پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے متعلق نگراں حکومت کی نظر آرہی ہے ، بد قسمتی سے اس ملک کے جمہوری نظام کو جسکی ابتداءگزشتہ پی پی پی کی حکومت کی جانب سے 2013 ءکے انتخابات کے بعد ایک مثالی اور پر امن انتقال اقتدار ہوا تھا وہ قابل رشک تھا دنیا بھر میں ہماری جمہوری روایات کی تعریفیں ہورہی تھیں وہ تمام روائیتیںاور مثالی جمہوری سوچ کو حالیہ متوقع انتخابات میں دریا میں ڈال دیاگیا اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ سب سے المناک دکھ اور اور تکلیف تو جمہوری خیالات رکھنے والوں کو پشاور اور بلوچستان میں دہشت گردوں جس سے ہمیں ایک طویل عرصے چھٹکارہ ملا ہوا تھا کے حملوں سے معصوم جانوں کا ناتلافی نقصان پہنچا۔ بجائے اسکے کہ ہمارے نووارد سیاست دان ان حملوں کی فوری مذمت کرنے کے بجائے جلسوں میں کہہ رہے ہیں کہ جب بھی نوازشریف پر کوئی مصیبت آتی ہے تو دہشت گرد مصروف ہوجاتے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کا کمزور شعبہ میڈیا اسکا جواب نہیں دے پاتا کہ اگر نواز شریف ہی وجہ ہے تو خداناخواستہ یہ دہشت گرد حملے تحریک انصاف کے جلسوں میں کیوںنہیں ہوتے دہشت گردوںکا نشانہ تحریک انصاف کے مخالفین کیوں بنتے ہیں؟؟ بہرحال یہ ملک میںدہشت گردی جسے ہماری افواج کنٹرول کرنے کہ تمام تر کوششوں میں مصروف ہے، اور یہ دہشت گردوں کو جب بھی موقع ملتاہے وہ اپنا داﺅ لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جمعہ جمعہ آٹھ نہیں بلکہ چار دن کی عمر کی نگراں حکومت نے نہ تجربہ کاری یا انتقام کو اپنے اوپر حاوی کرکے پورے انتخابی عمل جس پر پاکستان کے عوام کو فخر ہورہا تھا کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں اور جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے اسے متنازعہ کردیا ہے ، مسلم لیگ کے برطرف شدہ سربراہ نواز شریف جنہیں متنازعہ نیب نے سزا دی اور وہ خود گرفتاری کیلئے پاکستان آئے شائد وہ یہ سمجھ رہے تھے قانون تو رائے انوار جیسے پولیس افسر جن پر مبینہ قتل کے الزامات ہیں، قانون کو ملک کا آئین توڑنے والے پرویز مشرف کو بھی دعوت دیتا ہے ملک میں آجاﺅ تمھیں گرفتار نہیں کیا جائے وہ تو پرویز مشرف نے لاج رکھی کہ وہ سیاست سے تقریبا کنارہ کش ہوکر نہیں آئے۔ تو شاید نواز شریف نے سزاﺅں کے بعد از خود اپنی صاحبزادی کے ساتھ گرفتاری دینے کیلئے ملک میں آنے کا اعلان کیا تو قانونی ادارے انکو داد تحسین دینگے کہ واہ آپ قانون کی پاسداری کررہے ہیں مگر نواز شریف کی آمد پر ابو ظہبی سے لاہور تک اور پھر لاہور ائرپورٹ سے لیکر اڈیالا جیل تک جو تماشہ ہوا ہے وہ پاکستانی عوام نے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا نے دیکھا ۔ نواز شریف پر عائد الزامات پر کوئی بحث نہیں کہ اسپر توہین عدالت کا معروف قانون نافذ نہ ہوجائے مگر قانون نے یہ نہیںبتایاتھا کہ ایک شخص اور اسکی بیٹی کو گرفتار کرنے کو سارا شہر بند کردیں، ابو ظہبی سے لیکر لاہور کے ہوائی اڈے تک سینکڑو ن اہلکار تعنیات کردیں، دو ہیلی کوپٹرز اور ایک خصوصی جہاز تیاررکھیں کیا سب مفت ہوا ؟؟
اگر نواز شریف نے پیسہ کھایا جسکو عدالت بھی ثابت نہ کرسکی تو یہ کروڑوں روپیہ جو نگراں حکومت نے خرچ کیا وہ بھی تو اسی غریب ملک کے عوام کا تھا ۔ پھر میڈیا پر قدغن ، گرفتاریاں ، مقدمات نہ صرف قائم کئے اور جب میڈیا نے پوچھا نگراں وزیر داخلہ ، یا صوبائی وزیر داخلہ سے تو انہیں پتہ ہی نہیں تھا ( بقول انکے ) اسطرح یہ بھی نواز شریف کے بیان کی حمائت کررہے تھے کہ ان سے کوئی اور انتقام لے رہا ہے ، دراصل یہ ہمارے ہاں ریت رہی ہے کہ امن و امان کے ادارے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوجاتے ہیں ، انہیں ایک دفعہ کچھ کہہ دو وہ اسکوپایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے بے ڈھنگے انداز میں حد سے گزر جاتے ہیں اس تمام صورتحال نے بقول بلاول بھٹو زرداری تمام انتخابی عمل کو مشکوک کردیا ہے ، یہ ایک خوش آئیند بات ہے پی پی پی کے بلاول بھٹو اس انتخابی عمل میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہونے کے ناطے ملکی اور جمہوری معاملات میں ایک معتبر نوجوان کے طور پر سامنے آئے ہیں کاش پی پی پی کی بوڑھی لیڈر شپ پی پی پی کا یہ حشر جو آج ہے نہ کئے ہوتی تو اس قوم کو ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طرح سیاسی اورعالمی معاملات سے لیس نوجوان قیادت ملتی ، یہ الیکشن بلاول بھٹو کیلئے ایک تجربہ ہوگا اور امید ہے کہ آئیندہ انتخابات میں و ہ بھر پور لیڈر کے طور پر پی پی پی کی سابقہ ساکھ بحال کرینگے ۔وہ نوجوان ہیں مگر انکے لہجے میںگالم گلوچ کا عنصر نہیں ایک دھیما لہجہ ہے، ورنہ اس وقت ایک موصوف 65 سالہ نوجوان نے سیاسی فضاءکو مکدر کردیا ہے انکے اعلی ارشادات اور تقریروںسے بچے و نوجوان سیاست سے نفرت کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے جو ملک کے آنے والے جمہوری دور کیلئے نہائت نقصان د ہ ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوںکی ملک کے معاملات سے دوری ملک کے مسقبل کیلئے اچھا شگون نہیں۔