اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+اپنے نامہ نگار سے) نگران وفاقی کابینہ نے سابق وزیراعظم، مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کا ٹرائل کھلی عدالت میں کرنے کا فیصلہ کےا ہے اس کے لئے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن واپس لینے کی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس میں بینکنگ کورٹ ٹو لاہورکے جج کی تعیناتی اور چیئرمین پورٹ قاسم کو اضافی ذمہ داریاں دینے کی منظوری بھی دے دی ہے۔ نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک کی زیرصدارت وفاقی کا بینہ کا اجلاس وزیراعظم ہاﺅس میں ہوا جس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق نگران وفاقی کابےنہ کے اجلاس میں نواز شریف کے جیل ٹرائل سے متعلق وزارت قانون و انصاف کا نوٹیفکیشن واپس لینے کی منظوری سمیت دیگر فیصلے کئے گئے۔ جیل ٹرائل کے لیے نیب آرڈیننس کے تحت جاری نوٹیفکیشن منسوخ اور جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن واپس لینے کی منظوری دے دی۔ اجلاس میں نگران وزیر داخلہ نے امن وامان کی صورتحال پر بریفنگ دی اور اس دوران عام انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے کے اقدامات کو حتمی شکل دی گئی۔ اعلامیہ میں ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر عملدرآمد کےلئے مختلف تجاویز کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں دیامر بھاشا ڈیم کےلئے وفاقی ملازمین کا حصہ شامل کرنے کی منظوری دی گئی۔ تجویز کے مطابق گریڈ 17سے گریڈ 22تک کے ملازمین دو دن کی تنخواہ دیں گے، ڈیمز کےلئے گریڈ 1سے گریڈ16تک کے ملازمین ایک دن کی تنخواہ عطیہ کریں گے، کابینہ ارکان ایک مہینے کی تنخواہ ڈیمز فنڈ میں جمع کرائیں گے۔ وفاقی کابینہ نے فنانس ڈویژن کی طرف سے مختلف تجاویز کی منظوری بھی دی۔ نگران کابینہ نے الیکشن ایکٹ 2017ءمیں ترمیم کی منظوری دی، فاٹا اور پاٹا کو وفاقی ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دینے کے نوٹیفکیشن کی منظوری دی گئی، فاٹا اور پاٹا کو ٹیکس استثنیٰ ابتدائی طور پر تین ماہ کےلئے ہو گا۔سیکرٹری داخلہ نے امن و امان اور الیکشن کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کےلئے 42ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے، الیکشن کے دوران مختلف اداروں سے فضائی و تکنیکی معاونت لی جائے گی، الیکشن کے دوران نادرا اور ایف آئی اے تکنیکی معاونت فراہم کریں گے، صوبائی حکومتیں انتخابی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد یقینی بنائیں، سیاسی رہنماﺅں کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی نگران وفاقی وزےر اطلاعات و نشرےات سےد علی ظفر نے وفاقی کابےنہ کے اجلاس کے بعد سینیٹر شیخ عتیق، سینیٹر عطا محمد، سینیٹر خانزادہ خان، سینیٹر انوار لال ڈین، اور دیگر ارکان کے ہمراہ پی آئی ڈی مےں پرےس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کا ہے اس لئے سکیورٹی خدشات پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فاٹا میں بنیادی ڈھانچے کی تقسیم 10سال میں مکمل ہوگی، وفاقی حکومت اربوں روپے خرچ کرے گی، فاٹا میں انضمام سے پہلے ٹیکس کی شرح برقرار رکھی جائے گی،کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، نواز شریف کا فری ٹرائل آئین کے آرٹیکل 10اے کی روشنی میں کھلی عدالت کے اندر ہوگاان کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا، ایف اے ٹی ایف کے تحت بھی پاکستان کی بہت سے اقدامات کرنے ہیں جس کے حوالے سے ہم نے کابینہ اجلاس میں پالیسی فیصلے کئے ہیں،فاٹا اور ایف اے ٹی ایف کے معاملات فوری نوعےت کے تھے جس کیلئے کابینہ نے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئےِ۔کابینہ اجلاس میں سب سے اہم فیصلہ فاٹا اور پاٹا کے مستقبل کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ تمام قوانین پاٹا میں بھی لاگو ہوں گے۔ کابینہ کے گذشتہ اجلاس میں فاٹا میں ٹیکس قوانین کے نفاذ کے حوالے سے کمیٹی قائم کی گئی تھی ۔ کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ فاٹا میں انضمام سے پہلے ٹیکس کی شرح برقرار رکھی جائے گی ۔ فاٹا میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر بھی 5سال کیلئے ٹیکس میں چھوٹ ہوگی۔فاٹا میں بجلی کے بلوں پر بھی کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا اور نہ ہی انکم ٹیکس لگایا جائے گا۔ فاٹا میں ٹیکس قوانین سے متعلق کابینہ فیصلے کے بعد باقی کام صوبہ کرے گا۔فاٹا کیلئے کئے گئے تمام وعدوں کو وفاق پورا کرے گا۔ فاٹا اور پاٹا مےں ہونے والی مینوفیکچرنگ اور ریٹیلرز پر بھی جنرل سیلز ٹیکس نہیں لیا جائے گا جبکہ پرافٹس اور گینز پر انکم ٹیکس نہیں لیا جائے گا فاٹا میں انفراسٹرکچر جادو کی چھڑی سے مکمل نہیں ہو سکتا، انفراسٹرکچر کے لئے وفاق اور صوبائی حکومت نے وعدے کئے ہیں، فاٹا انضمام کے بعد عملدرآمد سے متعلق مسائل درپیش آئے لیکن فاٹا میں وہی قوانین لاگو ہوں گے جو پورے پاکستان میں ہیں۔ عالمی ڈونرز نے بھی فاٹا کی ترقی میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ الیکشن کا نتیجہ ووٹر کے ہاتھہ میں ہوتا ہے اور ووٹر ہی اس حوالے سے فیصلہ کرتا ہے۔ وزارت اطلاعات نے انتخابی عمل کے حوالے سے عوامی آگاہی مہم شروع کر رکھی ہے اور ہم سرکاری ٹی وی پر تمام سیاسی جماعتوں کو برابر وقت دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اڈیالہ جیل وفاقی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے اور قانون کے مطابق نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کو جیل کے اندر تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جن کی قانون اجازت دیتا ہے۔ نگران حکومت کا کام ملک کے اندر شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہے ہم کوئی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتے جو آنے والی حکومت کو پابند کر دے۔ لیکن فوری نوعیت کے معاملات دیکھنا ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کابینہ نے عام انتخابات 25جولائی کو ہی کرانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ نوازشریف کا ٹرائل کابینہ فیصلے کے بعد اڈیالہ جیل میں شفٹ کیا تھا لیکن اب ان کا جیل ٹرائل نہیں ہوگا۔پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات احمد وقاص ریاض نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نوازشریف کو جیل قوانین 1978ءکے تحت ان کے استحقاق کے مطابق بہترکلاس کی سہولیات فراہم کر دی ہیں جس میں ایک بہتر کلاس کا قیدی اپنا بستر، گدا، جوتے، میز، کرسی، 21انچ کا ٹی وی، ریڈیو، ٹوائلٹ کا سامان، اخبارات اور دیگر ایسی اشیاءاپنے خرچے پر حاصل کر سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نوازشریف کو جیل کے ایک بہتر کلاس پورشن میں علیحدہ کمرے میں رکھا گیا ہے جہاں انہیں ایک لوہے کا پلنگ، ذاتی بستر کی چادریں اور کپڑے، ایک چھت کا پنکھا، دو بریکٹ فین اور ٹوائلٹ کے سامان کی سہولت دی گئی ہے۔ وزیراطلاعات نے بتایا کہ نوازشریف کو چہل قدمی کے لئے مناسب جگہ فراہم کی گئی ہے اور وہ باقاعدگی سے اپنے کمرے سے منسلک لان میں واک بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جیل کا میڈیکل سٹاف اور راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے کنسلٹنٹ نوازشریف کا باقاعدگی سے طبی معائنہ بھی کرتے ہیں اور اسی ادارے کے ماہر غذا کی تجویز کردہ خوراک تعینات کردہ ایک خصوصی باورچی تیار کر کے فراہم کرتا ہے اور انہیں پھل، سلاد، کھجوریں اور تجویز کردہ خوراک (قیمہ) بھی فراہم کیا جا رہا ہے اور ان کی صحت تسلی بخش ہے۔وزیراطلاعات پنجاب احمد وقاص ریاض نے بتایا کہ نوازشریف سے ان کے خاندان کے افراد اور دوست (ان کی خواہش پر) ان سے جمعرات کے روز ملاقات کر سکتے ہیں۔ تاہم قانونی ماہرین ان سے ہفتے میں کسی بھی ایک دن مل سکتے ہیں۔ محکمہ جیل خانہ جات کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ملک مبشراحمد خان نے پریس کانفرنس کو بتایا کہ جیل کے قوانین و ضوابط پر باقاعدگی سے عمل ہو رہا ہے اور مریم نواز کو بھی خاتون ہونے کے ناطے جو ترجیحی سہولیات حاصل ہو سکتی ہیں دی گئی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اب جیل میں اے یا بی کلاس نہیں بلکہ آئین میں ترمیم کے بعد عام اور بہتر کلاس ہوتی ہے اور نوازشریف کو اس میں بہتر کلاس دی گئی ہے۔ پریس کانفرنس میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیراطلاعات پنجاب احمد وقاص ریاض کا کہنا تھا کہ پنجاب بھر میں سیاستدانوں کی سکیورٹی کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔
نوازشریف
لاہور/ اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ این این آئی+ آئی این پی) سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل نے مو¿قف اختیار کیا کہ ٹرائل کی دوسری عدالت منتقلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے تک کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ بدھ کو فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم کے خلاف دو ریفرنسز کی سماعت کی۔ خواجہ حارث کی آمد سے پہلے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دئیے کہ خواجہ صاحب آجائیں پھر دیکھتے ہیں، کیسے کیس چلانا ہے؟ نواز شریف کے وکیل نہ ہونے پر سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا گیا جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی۔ سماعت کے دوران العزیزیہ سٹیل مل اور فلیگ شپ ریفرنسز کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن بھی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔ فاضل جج نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں جیل ٹرائل کے معاملے میں کیا کیا جائے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ آپ ان ریفرنسز پر سماعت نہ کریں۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھ دیا ہے، ریفرنسز کی منتقلی میرا اختیار نہیں جس پر خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ اپنے ضمیر کے مطابق بھی دیکھیں۔ کیا آپ کو اب یہ کیسز سننے چاہئیں۔ جس پر احتساب عدالت کے جج نے استفسار کیا کہ آپ نے ریفرنسز کا ٹرائل منتقل کرنے کی ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی اس کا کیا بنا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ گزشتہ روز پراسیکیوٹرز میں سے کوئی بھی ہائیکورٹ میں نہیں تھا۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کی دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے تک کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں بھی معاملہ اٹھایا جس پر عدالت نے متعلقہ فورم پر جانے کا کہا تھا۔ اس وقت تک ریفرنسز کی کارروائی آگے بڑھانے پر کوئی حکم امتناع نہیں اس لیے مناسب ہوگا جس جج صاحب نے پورا کیس سنا وہی اسے آگے بھی بڑھائیں۔ جج محمد بشیر نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ جیل ٹرائل پر کیا کہیں گے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔ ہم اپنے مو¿کل سے مشورہ کر کے جواب دے سکتے ہیں۔ احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ یہ اتنا آسان نہیں کہ یہاں سے اٹھیں اور جیل جا کر ٹرائل شروع کر دیں۔ وکلا صفائی، گواہ اور جج کےلئے جیل میں جانے کا کیا طریقہ ہوگا۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جیل میں ٹرائل سے متعلق نوٹیفکیشن گزٹ آف پاکستان میں آچکا ہے جس پر اب استغاثہ یا دفاع کوئی اعتراض نہیں کر سکتے جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن کا مقصد ہمیں معلوم ہے۔ نوٹیفکیشن کا مقصد ہے الیکشن سے پہلے کوئی نواز شریف کو دیکھ یا سن نہ سکے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سماعت بغیر کارروائی30 جولائی تک کےلئے ملتوی کر دی۔ علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کی سزا کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لئے مقرر کر دی گئی۔ جسٹس علی اکبر قریشی آج 19 جولائی کو درخواست پر سماعت کریں گے۔ لاہور ہائیکورٹ میں متفرق درخواست لائیرز فاو¿نڈیشن فار جسٹس کی طرف سے قانون دان اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کی گئی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیب کا قانون اٹھارویں ترمیم کے بعد ختم ہو چکا ہے ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص کو اس قانون کے تحت سزا دی گئی جو غیرقانونی ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیاکہ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کو مردہ قانون کے تحت دی گئی سزا غیر قانونی ہے، عدالت نواز شریف اور دیگر کو نیب کے مردہ قانون کے تحت دی گئی سزا کالعدم قرار دے۔ لاہور ہائیکورٹ آفس نے درخواست سماعت کے لئے مقرر کردی۔
نواز درخواست