الیکشن فکس ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے شبہات

میں نے گھنٹی بجائی، پہلی ہی ٹون پر مولانا سراج الحق نے فون اٹھا لیا۔ مجھے ایسی توقع ہر گز نہ تھی۔ سہہ پہر کو عام طور پر سیاسی جماعتوں کے جلسے چل رہے ہوتے ہیں۔میںنے حیرت سے پوچھا کہ سینیٹر صاحب ، اس قدر فراغت کیسے میسر ہے۔
جواب ملا کہ ہاتھ باندھ کر نہ بیٹھ رہیں تو اور کیا کریں
میں نے کہا کہ میری سمجھ میں آپ کی بات نہیں، آپ کے ہاتھ کس نے باندھے۔
کہنے لگے کہ ایم ایم اے کااصل میدان خیبر پی کے اور بلوچستان ہے اور آپ دیکھ چکے ہیں کہ یہاں خون کی ہولی کس طرح کھیلی گئی۔ خیبر پی کے میں تو ایم ایم اے کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کو نشانہ بنانے کے کو شش کی گئی۔ اور بلوچستان میں تو لاشوں کی گنتی بھی مکمل نہیں ہو سکی۔
تو کیا آپ دہشت گردی سے خوفزدہ ہیں؟
ہمیں خوفزدہ کیا گیا ہے۔ صرف خاص جماعتیں نشانہ بن رہی ہیں اور انہیں انتخابی مہم چلانے ا ور موت میں سے ایک کے انتخاب کا حق دیا گیا ہے۔ پچھلے الیکشن میں بھی مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے دہشت گردوں کا نشانہ بنے اور اب بھی ہمیں کوئی معاف کرنے کو تیار نہیں۔
میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آپ کے مقابلے میں تحریک انصاف بھی تو ہے۔ اس کے لیڈر عمران تو دو دو تین تین جلسے روز کے پھڑکا رہے ہیں۔
سینیٹر سراج الحق ہنسے اور کہنے لگے کہ عمران خاںکو کھلی آزادی ہے۔ انہوںنے تو خصوصی امام ضامن باندھا ہوا ہے۔ انہیں ڈر کاہے کا! وہ جلسوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔
میںنے ہار نہ مانی اور اسی ضمن میں ایک اورسوال پوچھا کہ مولانا، آپ جانتے ہیں کہ بیرونی قوتیں پاکستان میں مداخلت کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بیان سیکرٹری الیکشن کمیشن نے دیا تھا اور ایک بیان فوج کے ترجمان جنرل آصف غفور نے بھی میڈیا بریفنگ میں دیا۔ آپ کو تو چاہیئے کہ ان بیرونی قوتوں کے مذموم عزائم کو شکست دیں اور انتخابی مہم جاری رکھ کر انہیں بتا دیں کہ کوئی خوف آپ کے جمہوری ارادوں کو متزلزل نہیں کر سکتا، سراج الحق صاحب نے کہا کہ آپ اتنے بھولے نہیں ہیں۔ ہم بیرونی قوتوں پر تو تب شک کر سکتے ہیں جب اندرونی قوتیں ہمیں آزادی مہیا کریں اور سب کو مساوی انتخابی مہم چلانے کا ماحول دیں۔ ہمیں تو پہلے اندرونی قوتوں سے خطرہ درپیش ہے، اسوقت سوائے تحریک انصاف کے کسی کو کھلا میدان میسر نہیں حالانکہ نگران حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر سیاسی جماعت کو یکساںمواقع مہیا کرے اور کہیں ڈنڈی نہ مارے، ہمار راستہ تو کھلے عام اندرونی قوتوںنے روک رکھا ہے، الیکشن کمیشن نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، ایک امیدوار کو صرف تیس لاکھ خرچ کرنے کی اجازت ہے ویسے ہر کوئی تیس لاکھ بھی نہیں خرچ کر سکتا مگر حرام کمائی کے اربوں روپے کی تشہیری مہم چل رہی ہے ہر سیکنڈ بعد نیا اشتہار چلتا ہے، جب اس قدر پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے تو شریف آدمی کیسے الیکشن لڑ سکتا ہے اور اس روش کو روکنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے مگر اسے اپنے آئینی فرض سے کوئی غرض نہیں۔ اس پس منظر میں آپ باتیں کرتے ہیں بیرونی مداخلت کی۔ آپ میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ نگران حکومت نے تیرہ جولائی کو میڈیا کو کس طرح زنجیروں میں جکڑے رکھا اور آپ کے ہونٹ سی دئیے گئے، آپ سے قلم چھین لئے گئے ، آپ کے کیمروں کی ریکارڈنگ ڈی لیٹ کر دی گئی۔آپ تو میڈیا کی ا ٓزادی کے چیمپیئن بنتے ہیں مگر اس قدر پابندیاں لگیں ، اس پر آپ کی طرف سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی، جب آپ کا یہ حال کر دیا گیا تو ہمارے راستے میں کونسی رکاوٹ ہے جو کھڑی نہیں کی گئی۔
میںنے پھر پوچھا مگر مولانا۔یہ انتخابی مہم تو چلتی نظرا ٓ رہی ہے، سیاسی راہنمائوں کے جلسے براہ راست نشر ہو رہے ہیں۔ آپ کو کیا رکاوٹ در پیش ہے،مولانا سراج الحق نے کہا کہ اس انتخابی مہم کا کیا فائدہ جب الیکشن فکس نظر آتا ہے ، ہمیں تو بھگا بھگا کر تھکایا جا رہا ہے جبکہ عام آدمی کہتا ہے کہ الیکشن کے فیصلے ووٹ کی پرچی سے نہیں ہوں گے، بلکہ وہ تو ہم سے پوچھتا ہے کہ کیا الیکشن ہو ں گے بھی یا نہیں، یہی تو پری الیکشن رگنگ ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ الیکشن تو فکس ہو چکا۔ یہی ہمارے شبھات بھی ہیں ۔ پاکستان میں آزادانہ، غیر جانبدارانہ الیکشن کی روا یت نہیں، یہاں الیکشن انجنیئرڈ ہوتے رہے، نتائج کاا علان کمپیوٹر کی مدد سے کیا گیا۔ ایسے الیکشنوں کی وجہ سے جمہوریت کا بیڑہ غرق کیا گیا اور پاکستان بھی دو لخت ہوا، آج حالات سنگین ہیں اور اگر اس شکوک وشبھات کی فضا میں الیکشن ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی تو
اسکے نتائج بھیانک نکل سکتے ہیں، یہ انتباہ تحریک انصاف کے سوا سبھی جماعتیں کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن تو زیر عتاب ہے مگر پیپلز پارٹی کے لیڈر زرداری نے بھی اس خطرے کے خلاف زبان کھولی ہے، شہباز شریف تو کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ الیکشن دھاندلی کی صورت میں سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں گی، بلاول نے خبردار کیا ہے کہ پہلے ایک اسلامی جمہوری اتحاد کے سر پہ ہاتھ رکھا گیا، آج ایک نیا اسلامی جمہوری اتحاد منظور نظر بن گیا ہے۔
میںنے پوچھا کہ کہیں ایساتو نہیں کہ شکست کے ڈر سے کچھ جماعتیں ابھی سے دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں؟
سینیٹر صاحب نے کہا کہ کونسی شکست کا ڈر۔ آپ ہمیں لیول پلے فیلڈ دیں اور پھر نتائج دیکھ لیں۔ اگر ایم ایم اے ہی کی بات کریں تو ہماری پوزیشن اللہ کے فضل سے بڑی مستحکم ہے اور ہم حیران کن نتائج کی توقع کر رہے ہیں ، خیبر پی کے اور بلوچستان میں ہم پی ٹی آئی کا مقابلہ کریں گے اور بلوچستان میں ایک نئے اتحاد کے خلاف بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔بلوچستان میں گھنائونی خوں ریزی ہوئی ہے مگر اسی صوبے میں جمہوریت کی بھی خوںریزی ہوئی جب اس صوبے کی حکومت راتوں رات بدل گئی اور پھر یہاں کے ایک غیر معروف امیدوار سنجرانی صاحب سینٹ کے چیئر مین منتخب کروا لئے گئے۔ بلوچستان کو ہوا بنا لیا گیا ہے اور یہ ہوا دکھا کر پس پردہ ایک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ہم اس کھیل کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں، ایم ایم اے کی سیا سی میراث قابل فخر ہے، مولانا مفتی محمود جیسا دبنگ سیاستدان اور کہاں ہو گا، مولانا مودودی اور مو لانا طفیل محمد اور قاضی حسین احمد جیسے بے خوف سیاست دان اور کس پارٹی میں ہیں، مولانا فضل الرحمن ایک زیرک اور سردو گرم چشیدہ شخصیت ہیں۔ ہمارے مقابلے میں جاگیر دار اور وڈیرے لوگ ہیں۔پی ٹی آئی ن لیگ اور پیپلز پارٹی ان کی محفوظ اور پسندیدہ پناہ گاہیں ہیں ، مگر ہم پاکستان کے قیام کے مقصد کی تکمیل چاہتے ہیں، نظام اسلامی کا نفاذ چاہتے ہیں، اسلام کی بالا دستی چاہتے ہیں، اسلام کا نفاذ کوئی کرے ، ہم اس کے ساتھ ہیں، ساتھ تھے اور ساتھ رہیں گے۔
نفاذ اسلام سے کیا مراد ہے؟
ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست کا کردار ادا کرے۔ ہر شہری کی جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں،خوتین کو وراثت میں حصہ دیا جائے، جو لوگ اپنی بہنوں ، بیٹیوں کو جائیداد کا حصہ نہیں دیتے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو، ہم خواتین کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ مملکت میں تمام بوڑھوں کو وظیفہ ملے اور تعلیم اورصحت کی سہولت ہر ایک کو فراہم کی جائے۔ یہ سارے فرائض ریاست کے ہیں اور انہی مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ہم نہیں چاہتے کہ ریاست پر مولویوں یا پیروں کی حکومت ہو، مگر جس کی بھی حکومت ہو وہ آئینی ذ مے داریاں نبھائے۔
مجموعی تاثر بتایئے، میںنے سراج الحق صاحب سے آخری سوال پوچھا
جوب ملا۔ ہم الیکشن کے عمل سے مطمئن نہیں ، تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں اور مساوی مواقع نہیں مل رہے اور کسی ایک کے ساتھ چہیتے کا سلوک ہو رہا ہے۔ اس سے عام آدمی شکوک وشبہات میںمبتلا ہے اور الیکشن فکسنگ کی بات کرتا ہے، عام آدمی کا ذہن صاف نہیںہو گا تو الیکشن شفاف نہیں ہو سکتا اورا س کے خطرات سے صرف نظر نہیں کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں نگران حکومت کو اپنے کردار کی وضاحت کرنا ہو گی کہ وہ کس حد تک غیر جانبدار ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...