سید ابولاعلیٰ مودودی کا حرم پاک میں زمزم کے مقام پر دیا گیا خطبہ
حمد و ثنا کے بعد:
برادران اسلام! یہ ہم سب کی انتہائی خوش بختی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اپنے اس گھر کی زیارت کا شرف بخشا اور یہ موقع نصیب فرمایا کہ ہم یہاں حج کے لیے آئیں اور ان’’آیات بینات‘‘ کو دیکھیں جو اس سرزمین میں عموماً ار خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں خصوصاً نمایاں طور پر نظر آ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں آ کر ایک آدمی اگر کھلی آنکھوں سے دیکھے اور سمجھنے کی کوشش کرے تو اس کو ہر طرف اللہ کی نشانیاں ہی نشانیاں نظر آئیں گی۔ جنہیں دیکھ کر اس کا دل ایمان سے بھر جائے گا۔
حضرات! آج سے چار ہزار برس پہلے یہ جگہ بالکل ایک سنسان وادی تھی۔ دنیا سے الگ تھلگ، اس ریگستان میں، ان پہاڑوں کے درمیان، اس وادی میں اللہ کا ایک بندہ آتا ہے اور ایک چار دیواری کھینچ کر اعلان کرتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، اور دنیا بھر کو پکار دیتا ہے کہ آئو اس کا حج کرو۔ اب دیکھیے آخر کیا بات ہے کہ چار ہزار برس سے دنیا بھر کے انسان اس پکار پر لبیک لبیک کہتے ہوئے اس گھر کی طرف کھچے چلے آ رہے ہیں اور آج تک تاریخ میں ایک سال بھی ایسا نہیں گزرا ہے کہ اس کا حج اور اس کے گرد طواف نہ ہوا ہو۔ کوئی دوسرا انسان ذرا ہمت کرکے کوئی جگہ بنا کر تو دیکھے اور اس کو قبلہ و عالم بنانے کے لیے اپنی سی پوری کوشش کرکے دیکھ لے۔ اسے خود معلوم ہو جائے گا کہ کتنے انسان اس کی طرف کھچ کر آتے ہیں۔ یہ صریح علامت ہے اس بات کی کہ حضرت ابراہیمؑ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، انہوں نے فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی اور اس کے حکم سے یہ گھر بنایا تھا ان کے بنائے ہوئے اس گھر کو واقعی اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت عطا فرمایا ہے اور یہ بھی اللہ ہی کا حکم تھا جس کے تحت انہوں نے دنیا کو حج کی دعوت عام دی تھی۔ اسی وجہ سے اس گھر کو اور اس دعوت عام کو یہ کشش نصیب ہوئی کہ صدہا برس سے دنیا بھر کے انسان اس کی طرف کھچے چلے آ رہے ہیں۔ قرآن مجید اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ وہ اللہ ہی تھا جس نے اس گھر کی تعمیر کے لیے اس جگہ کو منتخب فرمایا اور حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ اس کا حج کرنے کے لیے دنیا بھر کو پکار دیں۔
’’اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم کے لیے اس گھر کی جگہ تجویز کی اس ہدایت کے ساتھ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھ، اور لوگوں کو حج کے لیے پکار دے کہ وہ آئیں تیرے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدا اور اونٹوں پر سوار۔‘‘
حضرات! یہ اسی فرمانِ خداوندی کی برکت ہے کہ آج لاکھوں آدمی لبیک لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے فوج در فوج یہاں آ رہے ہیں اور پروانوں کی طرح اس خانہ کعبہ کے گرد گھوم رہے ہیں۔ یہ ان آیات بینات میں سے اولین اور نمایاں ترین نشانی ہے جو اس گھر میں آپ دیکھ رہے ہیں۔
اب ذرا ایک اور نشانی ملاحظہ فرمایئے۔ اس گھر کی تعمیر جب ہوئی تھی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا تھا کہ ہم اسے لوگوں کا مرکز و مرجع ہی نہیں بلکہ امن کا گھر بھی بنا دیں گے۔ اس اعلان پر چار ہزار برس گزر چکے ہیں اور اس وقت سے آج تک یہ امن ہی کا گھر بنا ہوا ہے۔ نہ صرف یہ خود امن کا گھر ہے بلکہ جس شہر میں یہ واقع ہے وہ بھی امن کا شہر ہے اور اس کے گردوپیش کئی کئی میل تک کا پورا رقبہ ایک ایسا حرم ہے جس کے اندر کسی نوعیت کی بدامنی نہیں ہو سکتی۔ آ روئے زمین پر اس حرم پاک کے سوا کوئی دوسرا گز بھر کا خطہ بھی ایسا نہیں پایا جاتا جسے اس معنی میں حرم ہونے کا شرف حاصل ہو، اور آج ہی نہیں کبھی دنیا میں کوئی دوسرا ایسا حرم نہیں پایا گیا ہے جس کا وہ احترام کیا گیا ہو جو اس حرم کا ہوا ہے۔ اس کی حرمت کا اندازہ آپ اس بات سے کیجیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے سیدنا محمدؐ کے وقت تک ڈھائی ہزار برس کا زمانہ عرب کی سرزمین میں ایسا گزرا ہے جس میں یہ ملک نظم و آئین سے محروم تھا۔ یہاں کوئی حکومت نہ تھی۔ کوئی قانون نہ تھا۔ ہر طرف بدامنی پھیلی ہوئی تھی۔ قتل و خون اور غارتگری کا زور تھا۔ کسی کے لیے جان، مال اور عزت و آبرو کی امان نہ تھی۔ لیکن اس پورے ملک میں صرف یہ حرم پاک ہی ایک ایسا خطہ تھا جہاں ان25 صدیوں کے دوران میں کامل امن قائم رہا۔ عرب کے وہ لوگ جو شوقیہ خونریزی امور لوٹ مار کرتے تھے، جن کے قبائل میں سو سو برس تک مسلسل لڑائیاں ٹھنی رہتی تھیں اور پشت در پشت انتقام کا چکر چلتا رہتا تھا، ان کا بھی یہ حال تھا کہ اس حرم کے حدود میں پہنچتے ہی ان کے ہاتھ رک جاتے تھے، حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کے قاتل کو بھی یہاں پالیتا تھا تو اس سے انتقام نہ لے سکتا تھا۔ یہ اس کے سوا اور کس چیز کا نتیجہ مانا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس خطہ پاک کو حرم اور امن کا گھر بنا دیا تھا۔ یہ اللہ جل شانہ کے فرمان ہی کی برکت تھی کہ’’ جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں آگیا۔‘‘(آل عمران97:) اللہ کی قدرت کے سوا دنیا میں کوئی طاقت اس انتہائی بدنظمی اور طوائف الملوکی کے زمانے میں ڈھائی ہزار برس تک یہاں امن قائم نہیں رکھ سکتی تھی۔ اسی نشانی کی طرف اللہ تعالیٰ کفار قریش کو توجہ دلاتا ہے کہ:
’’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پرامن حرم بنا رکھا ہے۔ حالانکہ ان کے گردوپیش لوگ اُچکے جا رہے ہیں۔‘‘اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر ایک اور نشانی ہے جو اس سرزمین میں پائی جاتی ہے۔ آپ ذرا وسیع نگاہ سے عرب کی تاریخ اور عرب کے ملک پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ عربی قوم کا ایک قوم کی حیثیت سے باقی رہنا اور عربی زبان کا اس قوم کی زبان کی حیثیت سے زندہ رہ جانا بھی اسی بیت اللہ کی برکت کا نتیجہ ہے۔ دنیا میں آج کوئی ملک ایسا نہیں پایا جاتا، نہ کبھی پایا گیا ہے جس کا رقبہ تو اتنا وسیع ہو جتنا عرب کا ہے اور پھر اس پورے ملک میں ایک ہی زبان بولی جاتی ہو۔ اور دنیا میں کوئی ایسا ملک بھی نہ آج موجود ہے، نہ کبھی موجود رہا ہے جس میں چار ہزار برس سے ایک ہی زبان بولی جا رہی ہے۔ اتنی لمبی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں، اور اتنے وسیع و عریض ملکوں میں ایک نہیں، بیسیوں، بلکہ سینکڑوں زبانیں بن جاتی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ جس ملک میں ہزاروں برس تک بدامنی اور بدنظمی رہی ہو، اور جو ملک صدیوں قبائلی لڑائیوں کی آماجگاہ بنا رہا ہو، اس کے اندر تو یہ وحدت باقی رہ جانا بالکل ہی ایک عجوبہ ہے۔ لیکن یہ معجزہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت نے اس سرزمین میں کرکے دکھایا، اور اس کا ذریعہ یہی خانکہ کعبہ اور یہی حج تھا۔
یہ خانہ کعبہ اور یہ حج اس کا ذریعہ کیسے بنا؟ اس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو مرکز و مرجع(مثابۃ للناس) بنایا اور حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ لوگوں کو اس کا حج کرنے کی دعوت عام دیدیں، تو اس کے ساتھ یہ بھی فیصلہ فرما دیا کہ سال میں چار مہینے(ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور جب عمرے کے لیے)حرام قرار دیدیئے جائیں۔ حکم دیدیا گیا کہ ان چار مہینوں میں لڑائی بند رہے، حج اور عمرے کے لیے آنے جانے والوں کو کوئی نہ چھیڑے، اور ان جانوروں پر بھی کوئی ہاتھ نہ ڈالے جو قربانی کے لیے بیت اللہ کی طرف لائے جا رہے ہوں۔ یہ حکم صرف ایک بندہ خدا کی زبان سے ادا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی حکومت نہ تھی۔ اس کے پاس کوئی فوج، پولیس یا عدالت نہ تھی کہ اس کے زور سے وہ اس قانون کو جاری کرتا۔ مگر اس کی پشت پر اللہ رب العالمین کی طاقت تھی جس کے زور سے یہ حکم نافذ ہوا اور عرب کے باشندے نسلاً بعد نسل اس کی پیروی کرتے چلے گئے۔
اس حکم کی برکت یہ تھی کہ عرب کی سرزمین کو ہر سال چار مہینے امن و امان کے میسر آ جاتے تھے۔ جن سے فائدہ اٹھا کر ملک کے ہر گوشے سے قافلے بیت اللہ کی طرف آتے تھے، قبائل کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے تھے، آزادانہ تجارت ہوتی تھی، میلے لگتے تھے، شاعری اور خطابت کے مقابلے ہوتے تھے، اور عرب کے دوسرے حصوں میں بھی قافلوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی۔ اس طرح عربوں میں ایک قوم ہونے کا احساس زندہ رہا۔ ان کی زبان محفوظ رہی اور وہ تمام عربوں کی ایک ہی زبان بنی رہی۔ ان کی ثقافت اور ان کی روایات باقی رہیں۔ اور یہ قوم کٹ کٹ کر مر جانے سے بچ گئی۔ یہ سب کچھ اسی گھر کا صدقہ اور اسی گھر کا کرشمہ ہے۔ اسی کی بدولت ایک قوم مرنے سے بچی، ایک زبان مٹنے سے بچی اور ایک ملک کے اندر ایک ہی زبان اور ایک ہی تہذیب برقرار رہی۔ یہ گھر نہ ہوتا اور یہ حج نہ ہوتا تو ہزاروں برس کی بدامنی و بدنظمی اور طوائف المکوکی سے عرب قوم اور عربی زبان اور عربی ثقافت کبھی کی مٹ چکی ہوتی۔
ایک اور نشانی ملاحظہ ہو۔ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہاں اپنی ایک بیوی اور بچے کو لا کر چھوڑا تھا اس وقت یہاں کوئی شہر تو درکنار برائے نام کوئی چھوٹا سا گائوں تک نہ تھا۔ اس حالت میں ان کی زبان پاک سے یہ دعا نکلتی ہے کہ:
ترجمہ:’’اے ہمارے پروردگار، میں نے اپنی نسل کا ایک حصہ لا کر بے آب و گیاہ وادی میں بسا دیا ہے، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اسے پروردگار، اس لیے کہ وہ نماز قائم کریں۔ پس لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور ان کو پھلوں سے رزق دے تاکہ یہ شکر گزار ہوں۔
اب دیکھیے کہ اس دعا کا ایک ایک لفظ کس طرح پورا کیا گیا۔ اس بیت اللہ کے گردیہ شہر مکہ آباد ہوا۔ حج نے اس کو تمام عرب کا مرکز بنا دیا۔ تجارتی قافلے عرب ک ہر حصے سے یہاں آنے لگے اور یہاں سے گزرنے لگے۔ اسلام سے صدیوں پہلے یہ شہر ایک تجارتی منڈی بن چکا تھا اور دنیا بھر کا مال کھچ کھچ کر یہاں آتا تھا۔ آج بھی آپ دیکھیں گے کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو مکہ کے بازاروں میں آپ کو نہ مل جاتی ہو۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے کہ:
ترجمہ: ’’کیا ہم نے اہل مکہ کے لیے ایک پرامن حرم نہیں بنا دیا ہے جس کی طرف ہر طرح کے پھل کھچے چلے آتے ہیں۔ ہماری طرف سے رزق کے طور پر۔‘‘؟
حضرات! عرب اور عربی قوم اور عربی زبان پر یہ ساری عنایات جس مقصد عظیم کے لیے فرمائی گئی تھیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایک دعا کو پورا کرنا تھا جسے قرآن مجید ان الفاظ میں نقل کرتا ہے۔
ترجمہ:’’اور جب ابراہیم ار اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو وہ یہ دعا کر رہے تھے کہ ’’اے ہمارے رب، ہماری اس سعی کو قبول فرما لے، یقیناً تو سب ہی کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم(فرمانبردار) بنا لے اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو، اور ہم کو ہماری عبادت کے طریقے بتا اور ہمارے قصور معاف کر، بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔ اے ہمارے رب، اور ان لوگوں کے اندر خود انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، یقیناً تو ہی زبردست حکیم ہے۔
یہ تھا وہ اصل مقصد جس کے لیے عرب قوم اور عربی زبان کو زندہ رکھنے کا وہ اہتمام فرمایا گیا تھا جس کی تفصیل ابھی آپ نے سنی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ و اسماعیل کی یہ دعا، اور اس کے نتیجے میں آخر کار اسی شہر مکہ سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبعوث ہونا اور پھر یہیں سے ایک عظیم الشان امت مسلم کا اٹھنا جو دنیا میں قیامت تک کے لیے توحید کی علمبردار بنی، یہ اللہ جل شانہ کی نشانیوں میں سب سے بڑی نشانی ہے جس کا مشاہدہ آپ اس حرم پاک میں کر رہے ہیں۔
یہی شہر مکہ ہے جس سے محمدؐ نے دعوت الی اللہ کا آغاز فرمایا تھا اور یہی صفا کی پہاڑی ہے جس پر کھڑے ہو کر حضورؐ نے سب سے پہلے قریش کے خاندانوں کو نام بنام پکار کر اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی تلقین فرمائی تھی۔ اس شہر کے سرداروں نے حضورؐ کی اس دعوت کو دبا دینے کے لیے اپنا سارا زور صرف کر دیا۔ یہ حرم کی زمین، یہ ابو قبیس کا پہاڑ، اور یہ مکہ کی گھاٹیاں، سب اس ظلم و ستم کے گواہ ہیں جو 13 سال تک حضورؐ اور آپ کے اصحابؓ پر توڑا گیا۔ مگر آخر کار ان سب لوگوں نے نیچا دیکھا جنہوں نے دعوت محمدی علیٰ صاجہا الصلوٰۃ و السلام کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ دیکھ لیجیے، آج یہاں ابو جہل اور ابولہب کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے اور اس حرم کو میناروں سے پانچوں وقت اشھدان محمد رسول اللہ کی آواز بلند ہو رہی ہے۔
یہی خانہ کعبہ ہے جس کی دیوار کے نیچے ایک روز رسول اللہؐ تشریف فرما تھے اور حال یہ تھا کہ مکہ میں ہر طرف مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم ہو رہا تھا۔ اس حالت میں حضرت جناب بن الارت نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسولؐ اللہ اب تو ظلم کی حد ہوگئی ہے، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہ فرمائیں گے؟ اس پر حضورؐ نے فرمایا:’’یہ کام تو پورا ہو کر رہے گا، یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا جب ایک مسافر صنعا سے حضر موت تک بے خوف و خطر سفر کرے گا۔ مگر تم لوگ بے صبری کر رہے ہو۔‘‘ اللہ کے رسولؐ کی یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی اور چند سال کے اندر ہی وہ وقت آگیا جب اسلام کی حکومت نے پورے جزیرۃ العرب میں مکمل امن قائم کر دیا۔
یہی خانہ کعبہ ہے جس کے کلید بردار عثمان بن طلحہ سے ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے کنجی مانگی تاکہ بیت اللہ میں داخل ہو کر عبادت کریں۔ اس نے نہ صرف یہ کہ انکار کیا بلکہ حضورؐ کے ساتھ بدکامی کی۔ آپ خاموشی کے ساتھ اس کی ساری سخت سست باتیں سنتے رہے اور پھر بڑی سنجیدگی کے ساتھ فرمایا’’ اے عثمان تم دیکھ لو گے کہ ایک روز یہ کُنجی میرے ہاتھ میں ہوگی اور مجھے اختیار ہوگا کہ جسے چاہوں دیدوں۔‘‘ عثمانؓ نے کہا’’اگر ایسا ہوا تو وہ دن قریش کے لیے ہلاکت اور ذلت کا دن ہوگا۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا’’نہیں، وہ قریش کے لیے عزت اور سرفرازی کا دن ہوگا۔‘‘ یہ قول بھی پتھر کی لکیر ثابت ہوا۔ اس بات کو دس سال سے زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ مکہ معظمہ فتح ہوا۔ اسی عثمان طلحہ کو حضورؐ نے حکم دیا کہ کلید خانہ کعبہ پیش کرے۔ اس نے بے چوں و چرا حاضر کر دی۔ حضرت عباسؓ نے باصرار درخواست کی کہ اب کلیدی برداری کعبہ کی خدمت بنی ہاشم کے سپرد کر دی جائے لیکن حضورؐ نے وہ کُنجی اسی عثمان بن طلحہ کو عطا کی اور فرمایا:’’لے لو اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تم اسے اس کو کوئی نہ چھینے گا مگر ظالم۔‘‘ یہ ارشاد بھی پورا ہو کر رہا۔ آج تک اس گھر کا کلیدی بردار وہی خاندان چلا آ رہا ہے جسے فتح مکہ کے روز حضورؐ نے اس کی کنجی سپرد فرمائی تھی۔
یہی شہر مکہ ہے جس کے لوگوں سے حضورؐ نے اپنی دعوت کے ابتدائی زمانہ میں فرمایا تھا کہ میں ایک ایسا کلمہ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں جسے اگر تم مان لو گے تو عرب اور عجم سب اس کی بدولت تمہارے تابع فرمان ہو جائیں گے۔ قریش کے لوگوں نے اس وقت اس بات کو جھوٹ سمجھا تھا۔ وہ اس کے برعکس اپنی جگہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کلمے کو ہم نے قبول کر لیا تو تمام عرب ہم پر ٹوٹ پڑے گا اور ہماری ریاست تو کیا، ہمارا وجود بھی یہاں باقی نہ رہ سکے گا۔ وہ کہتے تھے کہ’’اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کر لیں تو ہم اپنی جگہ سے اچک لیے جائیں گے۔‘‘ لیکن اللہ کے رسول کی زبان مبارک سے جو کچھ نکلا تھا وہ لفظ بلفظ پورا ہو کر رہا۔ قریش کے جن لوگوں نے حضورؐ کی یہ بات اپنے کانوں سے سنی تھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ چند سال کے اندر عرب اور عجم سب خلافت اسلامی کے تابع فرمان ہوگئے اور قریش ہی کے خلفاء اس عظیم الشان سلطنت کے فرمانبردار ہوئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک یہ گھر صرف عرب کا مرکز تھا اور عرب ہی اس کے حج کے لیے آتے تھے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے آنحضورؐ کی زبان مبارک سے یہ اعلان کرایا کہ’’جہاں بھی تم ہو، نماز میں تم اپنا رخ اسی کی طرف پھیرو۔‘‘ اور جب مالک زمین و آسمان نے اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے یہ فرمان صادر کیا کہ’’اللہ کا حق ہے لوگوں پر اس گھر کا حج، جو شخص بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘ تو یہ گھر تمام دنیا کے لیے مرکز و قبلہ بن گیا۔ آج کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اس گھر کی طرف ر خ کرکے نماز پڑھنے والے موجود نہ ہوں، اور کوئی خطہ زمین ایسا نہیں ہے جہاں سے اللہ وحدہ لاشریک کے ماننے والے اس کا حج کرنے کے لیے نہ آ رہے ہوں۔ اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان احکام کا اعلان ہوا تھا اس وقت اسلام کا نفوز و اثر صرف مدینہ طیبہ اور اس کے گردو پیش ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود تھا۔ کوئی شخص بھی اس وقت یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ یہ احکام تمام روئے زمین پر اور اتنے بڑے پیمانے پر نافذ ہوں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب دس دس لاکھ آدمی دنیا کے ہر حصے سے کھچ کر یہاں جمع ہوں گے۔، خدا وند عالم کی طاقت کے سوا اور کون سی طاقت ایسی ہو سکتی تھی جو اس خانہ کعبہ کو یہ مقبولیت، یہ مرکزیت اور یہ کشش عطا کر دیتی۔
حضرات، یہ اللہ عزوجل کی بے شمار نشانیوں میں سے چند نمایاں نشانیاں ہیں جن کی طرف میں نے آپ کو توجہ دلائی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سرزمین میں آنے کی سعادت بخشی ہے تو آپ اس کا پورا فائدہ اٹھائیں اور یہاں سے گہرا، سچا، اور پختہ ایمان لے کر جائیں۔ یہاں اللہ کی جو نشانیاں نظر آتی ہیں وہ آدمی کا دل اس یقین سے بھر دینے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ گھر واقعی بہت ا للہ ہے، اس کے بنانے والے حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام حقیقت میں اللہ کے رسول تھے، اور جن عظیم الشان ہستی کی بدولت یہ گھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شرک و بت پرستی سے پاک ہو کر تمام دنیا کے اہل توحید کا قبلہ اور مرکز و مرجع بنا اس کی نبوت درسالت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔۔۔