خواجہ آصف قومی اسمبلی میں خوب گرجے،خوب برسے، ان کی گرج چمک اسلام آباد سے میاں نواز شریف کو’ من پسند ‘جیل کوٹ لکھپت میں سنائی اور دکھائی دی ہو گی، میاں صاحب نے قید کاٹنے کے لیے کوٹ لکھپت جیل منتقل ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ جیل انہیں اے سی، فریج دو کمرے، ٹہلنے کے لیے لان ،اخبارات ،ملٹی چینل ٹی وی(اڈیالہ جیل میں ٹی وی پر صرف قومی ٹی وی چلتا تھا) ،گھر کے کھانے،ہفتے میں دو ملاقاتوں سمیت کئی سہولتیں دستیاب ہیں،دیگر قیدی ایسی ‘مراعات‘کے سہانے خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ پھر بھی میاں صاحب اس مصرعہ کا مرقع نظر آتے ہیں ؎
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
یہ جیل اتفاق فائونڈری سے متصل ہے ۔فائونڈری سے اٹھنے والی مشینری کی آوازیں کانوں میں رس گھولتی ہوں گی ۔۔۔یا یہ بولتی ہونگی، ’’ایسی بادشاہی سے یہ فیکٹری بھلی تھی۔ بہرحال خواجہ آصف کا حاشیہ برداری اور کاسہ لیسی کا لائوڈ انڈکلیئرپیغام میاں نواز شریف تک ٹی وی سے ہوتا ہوا کانوں کے ذریعے دل میں اُتر گیا۔میاں صاحب کئی دلوں سے اتر چکے، بہت سوں میں ابھی بستے ہیں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔’میاں نواز شریف کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ہمیشہ پائندہ رہے گا‘‘۔ خواجہ آصف کے اس بیان پر اسی محفل میں وزیر پارلیمانی امور محمد علی خان نے کہا۔’’ ہمیشہ زندہ رہنے والی اللہ کی ذات ہے‘‘۔ خواجہ صاحب کے جذبات اور میاں نواز شریف سے انکا جذباتی لگائو سیل رواں اور بحرِ بے کراں کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ مزید فرمایا میراقائدبار بار آیا،تین بار وزیر اعظم بنا،وہ ایک بارپھر آئے گا،شیر آئیگا،شیر آئیگا،شیر آئیگا۔۔۔‘ بلاشبہ عوام نے انہیںتین بار وزیراعظم بنایا۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے، پنڈی سے میجر نذیر اور وہاڑی سے اسلم خان نے فون کرکے ایک ہی بات کی ۔’میاں نوازشریف تین بار وزیراعظم بنے اور ہر بار ؎
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘
خواجہ صاحب مشرف دور میں اپنی قید کا ذکر نوازشریف سے بھی بڑھ کر کرتے ہوئے خود کے پارلیمنٹیرین بننے کو کرشمہ قرار دیتے ہوئے باور کرارہے تھے۔’ آج مشرف کہاں ہے‘۔’’ حضور یہ ہیں وہ ذرائع‘‘ والی سرکار کہاں ہے؟اور کیوں ہے؟؟ایک بی بی نے میاں صاحب کو نشہ قرار دیاتھا۔ایسے لوگ لیڈر کو اوتار جیسا درجہ دینگے تو اس کا دماغ ساتویں آسمان پر کیوں نہیں جائیگا۔اسی زعم میں لیڈر خود کو سراپا نظریہ باور کرانے لگتے ہیں۔عمران خان کے حریف ’’تبدیلی‘‘ کو طنز کے طورپر لیتے ہیں۔ تبدیلی کیا ہے؟: میاں نوازشریف‘ شہبازشریف‘حمزہ‘ زرداری‘ فریال تالپور‘ بلاول جیل میں ہونگے‘ کیاکبھی سوچا تھا کسی نے! یہ ہے تبدیلی۔24ہزار ارب روپے کے قرضوں کا آڈٹ کرایا جارہا ہے،ریکوڈک معاہدے کی منسوخی اور چھ ارب ڈالر جرمانے کے حوالے سے کمشن تشکیل دے کرہرجانے کی رقم کی قومی خزانے سے ادائیگی سے بچنے کی کوشش ہورہی ہے۔سیرو سیاحت کو پُر بہار بنانے کیلئے بے جا اصراف کی ہوشربا داستانیں سامنے آرہی ہیں۔وزراء کے بقول نواز شریف نے 431 کروڑ،زرداری 316 اورخادم اعلیٰ نے 877 کروڑ ذاتی سکیورٹی پر لگائے۔نجی دوروں کو سرکار کے کھاتے میں ڈال کر اربوں روپے اُڑا دئیے گئے ۔پی ٹی آئی حکومت ان سے حساب مانگ رہی ہے۔زرادری نے کہا ہم نے اپنے دور میں احتساب نہیں کیا۔کیوں نہیں کیا؟تاکہ ہمارا بھی نہ ہو،مگر اب ہورہا ہے۔یہ ہے تبدیلی!!!اور پھر کلبھوشن کیس عمران حکومت نے اتنی محنت سے جیتا جتنی گزشتہ دور میں اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی گئی۔شہباز شریف کی طرف سے زلزلہ زدگان کے فنڈ میں اربوں روپے کی چونا گری کا انکشاف برطانیہ کے ڈیلی میل نے کیا،صحافی ڈیوڈ روز اپنی کہانی پر قائم،شہباز نے عدالت جانے کا اعلان کیا،گزشتہ سال اسی اخبار نے لندن میں شریف فیملی کی 32ملین پائونڈ کی مزید جائیدادوں کا انکشاف کیا،اس موقع پر بھی عدالت جانے کی دھمکی دی گئی مگروہ چراغ کبھی نہ جل سکے۔
قوم کے وسائل سے جائیدادیں بنانا ستم اور بے جا اصراف ستم بالائے ستم ہے۔ ذاتی دوروں کیلئے بھی سرکار کے خزانے پر حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھی گئی۔ کہا جاتا تھا پاکستان کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے مگر فرق کوئی نہیں پڑتا،فرق ضرور پڑتا ہے جو بے انت قرضوں کی دھول میں دبا رہا،اب گرد ہٹ رہی ہے تو فرق صاف ظاہر ہے۔ملکی وسائل کولوٹے جانے سے کسی کو انکار نہیں۔ کل تک مسلم لیگ (ن) اس کا ذمہ دار پی پی پی کو ،پی پی ن لیگ کو قرار دیتی تھی۔ یہ واحد سچ ہے جو دونوں پارٹیاں ’گھسیٹیں گے، الٹا لٹکائیں گے‘ کے دعوئوں کیساتھ بولتی رہیں۔ اب ایکدوسرے کوپوتر اورپارسا قرار دے رہی ہے۔احتساب کے بھنور میں پھنسنے والے بار بار کہتے ہیں اتنا ظلم کرو جتنا برداشت کر سکو۔ احتساب ظلم ہے تو آج ایسا ظلم کرنیوالے بھی کرپشن کرتے ہیں تویہ دُہرے تہرے ظلم کے مستوجب ہیں۔لیگی دور میں کلبھوشن کیس کو بری طرح ہینڈل کیاگیا۔شاید رہائی کا ارادہ تھا۔55کروڑ فیس لینے والے وکیل نے50منٹ میں حق نمک اداکردیا۔اب اٹارنی جنرل منصور اور ان کی ٹیم نے جانفشانی سے کیس جیتا،شاباش۔اللہ نے میاں صاحب کو بار بار موقع دیا مگر وہ چاپلوسوں کے حصار رہتے ہوئے اقتدار کو بھی تجارت کاروبار اوربیوپار سمجھتے رہے۔جو ان کو کبھی جیل بھجواتا اور کبھی جلا وطنی کی اذیت سے دوچار کراتا۔ان سے سوال تو بنتا ہے،دس توں کی’’ بیوپار‘‘ وچوں کھٹیا۔