ملک سیاسی عدم استحکام اور اندرونی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلے ۔ سینٹ اجلاس کے دوران ہونے والی جھڑپ اور ارکان میں تلخ جملوں کا تبادلہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کا اپوزیشن کے ساتھ رویہ تشویشناک اور غیرذمہ دارانہ ہے۔ قوم کے نمائندوں کو اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ قومی اسمبلی سے عوام دشمن بجٹ کو منظور کروانے کی حکومتی کوشش لمحہ فکریہ ہے۔ ماضی میں جن پالیسیوں پر عمران خان مخالفین پر تنقید کیا کرتے تھے ، آج انہی پالیسیوں کو اختیار کرکے آئی ایم ایف کے پاس جا پہنچے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ حکمرانوں کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ وزراء اور مشیر بھی حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے سے کترارہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں ٹیکسوں کی بھر مار کرکے عوام کومایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ مدینہ کی فلاحی ریاست کا خواب دکھانے والوں کا سارا بجٹ ہی سودی معیشت پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستان میں خوشحالی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک معیشت کو سود سے پاک نہیں کرلیا جاتا۔ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن کا عوامی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک و قوم پر کٹھن وقت آن پڑاہے۔ کفایت شعاری کے دعویداروں نے بھی سرکاری پروٹوکول و دیگر اللوں تللوں پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کردیئے ہیں۔ مراعات کا سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے، جیسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار حکومت میں تھا، جس تبدیلی اور عادلانہ نظام کی بات تحریک انصاف کیا کرتی تھی وہ کہیں نظر نہیں آتا۔حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص پریشان ہے۔جب تک حکمران خود کو نہیں بدلیں گے اس وقت تبدیلی نہیں آسکتی۔
حکومتی اقدامات کے باعث عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ معیشت تباہ حال ہے جبکہ حکمرانوں کی ساری توجہ مخالفین کو دبانے پر مرکوز ہوچکی ہے۔پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے اور یہاں پر رہنے والی اقلیتوں کوبھی ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ مذہبی آزادی کے حوالے سے حالیہ امریکی رپورٹ بے بنیاد اور افسوس ناک ہے۔امریکہ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ پاکستان کا آئین تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے اور باہمی رواداری کو فروغ دینے کی بات کرتا ہے۔ ملکی آئین میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ امریکہ اپنے مذموم عزائم کی خاطر پاکستان کے اندر اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے نام نہاد ایجنڈے کو بنیاد بنا کر مطلوبہ اہداف کا حصول آسان بنانا چاہتا ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے اس رپورٹ کو مسترد کرنا کافی نہیں بلکہ اصل حقائق اقوام متحدہ اور پوری دنیا کے سامنے لائے جانے چاہئیں۔ اسلام امن واخوت کا پیغام دیتا ہے اور انسانیت کی بات کرتا ہے۔ اسلام میںحقوق العباد کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کوپاکستان پر انگلی اٹھانے کی بجائے اپنے ملک کے اندر ہونے والے متعصبانہ واقعات کا نوٹس لینا چاہیے۔
ہندوستان،فلسطین اور بر ما میں اقلیتوں پر ہونے والے بد ترین مظالم امریکہ سمیت پوری دنیا کو کیوں نظر نہیں آتے؟۔ بھارت نے گزشتہ 70برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں پر مظالم کی انتہا کررکھی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد معصوم اور بے گناہ کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ ہزاروں خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوگئے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی دکھائی نہ دینے والوں کو مقبوضہ کشمیرکی صورتحال دکھائی نہیں دیتی؟ امریکی رپورٹ من گھڑت اور بے بنیاد ہے جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنا ہے۔ حکومت کواس قسم کے منفی پروپیگنڈے پر کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ ملک و قوم اس وقت انتہائی پریشان کن حالات سے دوچار ہیں۔ جب تک حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ اور کرپشن کا خاتمہ نہیں کرلیتے ، اس وقت تک ملک و قوم ترقی و خوشحالی کی منازل طے نہیں کرسکتے۔ حکومت کی ذمہ د اری ہے کہ وہ قومی دولت لوٹنے والوں سے ایک ایک پائی واپس لائے، مگر بد قسمتی سے حکومت اس میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ذاتی عناد میں کی گئی قانون سازی انتہائی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اس سے اداروں کے اختیارات کی ایک نئی جنگ شروع ہوجائے گی۔ حکومت قانون کوآزادی سے کام کرنے دے۔ جس کسی نے بھی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے، مگر اس سارے عمل میں سیاسی انتقام کی بو نہ ہو۔ کرپٹ افراد قومی مجرم ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اب تک جتنے بھی کرپشن کے الزام پر لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ، ان سے ریکوری نہیں ہوسکی۔
ماضی کے حکمرانوں نے اگر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہوتا تو آج وہ یوں عدالتوں کے چکر اور جیلوں میں نہ پڑے ہوتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکمران بھی ان کے انجام سے سبق سیکھیں اور حقیقی معنوںمیں عوام کی فلاح وبہبود کے کام کرکے دکھائیں۔ قانونی اداروں کو دبائو میں لائے بغیر کام کرنے دیا جائے۔سابق صدر آصف علی زرداری کی اومنی کیس اور جعلی اکائونٹس سکینڈل میں اگست 2018ء میں ضمانت ہوئی تھی ، ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بڑی پھرتی دکھائی تقریباً 10مہینے تک سابق صدر کو گرفتار نہیں ہونے دیا ۔آخر کار رواں ماہ 10جون کو آصف زرداری کو نیب نے گرفتار کرہی لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احتساب کا نظام ملک و قوم کی ترقی کے لیے از حد ضروری ہے۔ احتساب انصاف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ شفاف اور غیر جانبدار احتساب کے لیے حکومت کو نیب کے ادارے کو آزادانہ کام کرنے کا موقعہ دینا چاہیے۔ یکطرفہ اور من پسند احتساب سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ 10سالوں کے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں 24ہزار ارب روپے کی کرپشن پر انکوائری کمیشن بنانے کااعلان کیا ہے۔ جس کی نگرانی وہ خود کریںگے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ عمران خان پرویز مشرف کے 9سال کی کرپشن کا احتساب بھی کرتے اور اس کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جاتا جو گزشتہ 19سال کی کرپشن کی تحقیقات کرتا ۔یوں عوام کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجاتا ہے۔ قوم کو پتہ چل جاتا کہ ملکی خزانے کو لوٹنے والے سیاہ کردار آخرکون ہیں؟ مگراحتساب کا یہ معاملہ یہاں تک ہی نہیں رکنا چاہیے ۔ ایک ایسا عدالتی کمیشن جس کی نگرانی سپریم کورٹ کرے وہ گزشتہ 19سالوں کی تحقیقات کرے اور جنرل پرویز مشرف، نواز شریف اور آصف زرداری سمیت جن لوگوں نے بھی ملکی دولت پر ہاتھ صاف کیے ہیں، ان سے پیسہ واپس لے کر عوام کو غربت، مہنگائی اور بے روز گاری سے نجات دلوائی جائے ۔ یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے عمل کو بلا امیتا ز اور شفاف انداز میں لے کر چلے۔ اس وقت پاکستان کا اصل مسئلہ کرپشن اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔