قومی ترقی میں حائل مشکلات

9 اگست 1965کو دنیا کے نقشہ پر آزاد ہونے والے سنگاپور کی معاشی حالت کا تصور کریں تو افریقہ کے پسماندہ ترین ممالک گھانا سے بھی بدتر صورتحال کا ادراک ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے ہم رکاب بنانے کیلئے سنگاپور کے پاس نہ تو تیل کے ذخائر تھے اور نہ ہی کوئی معدنی دولت کے انبار مگر ان کے حکمرانوں کا جذبہ سچا تھا۔ فوری طور پر تعلیم کو لازم قرار دیتے ہوئے یکساں تعلیم کی پالیسی اپنائی۔ طویل مشاورت اور قومی وسائل کو جانچتے ہوئے60 کی دہائی کے آخر میں اپنے پروگرام کو واضح شکل دی۔ 1970 کی دہائی میں ترقی کے سفر پر کام شروع ہوا۔ قومی وسائل پر مبنی پلاننگ کو قطعی شکل دی۔ 90ء کی دہائی میں دنیا کے نقشہ پر سنگاپور ایک طاقتور معاشی ملک کا روپ دھار چکا تھا۔بحرالکاہل اور بحر ہند کے درمیان اپنی جغرافیائی پوزیشن کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد تجارت کو اپنا سلوگن بنایا اور اپنی پوری قوت شپنگ کی طرف لگا دی۔ آج شپنگ انڈسٹری میں سنگاپور کا مقابلہ بڑی عالمی قوتیں بھی نہیں کر سکتیں۔
سنگاپور کا مقابلہ میںپاکستان کے قومی وسائل کا جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے۔ ہمارے وطن کو اللہ رب العزت نے ہر قسم کے نوادرات سے نوازا ہے۔ یہاں میٹھے پانی کے روانی کے ساتھ بہتے ہوئے دریا ہی نہیں، ہر قسم کی معدنی دولت سے مالامال کہسار ہی نہیں بلکہ تیل اور گیس کے سوتے خشک ریگستانوں کو بھی دولت بخشتے ہیں۔ صحرائے تھر میں تو قدرت نے کوئلہ کا سب سے بڑا ذخیرہ عطا کیا ہے۔ برف پوش پہاڑوں میں گھری وادیاں دنیا بھر میں سیاحوں کی جنت بن سکتی ہیں۔ مگر حکمران! شاید حب الوطنی کے جذبہ سے یکسر عاری ہیں۔ یہاں سیاسی آشیر باد پر ملازمتیں ہی نہیں ملتیں، حکام کی تعیناتی بھی پسند نا پسند پر کی جاتی ہے حتیٰ کہ وزارتیں بھی سیاسی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہیں۔ چاہے ٹرینوں کے حادثہ میں کتنے لاشے گر جائیں، کوئی افسوس نہیں ہوتا بلکہ مدا مرنے والے ڈرائیور پر ڈال کر انکوائری پوری کر لی جاتی ہے۔ شہرمیں چلنے والے تیسرے درجے کی کریم اور اوبر سروسز کمپنیاں ٹریکر کی مدد سے جانتی ہیں کہ ان کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گاڑیاں کہاں کہاں ہیں۔ اس کے مقابلہ میں بلکہ کھربوں روپے سے چلنے والے ریلوے نظام میں صرف دو چار سو گاڑیوں کے بارے میں اگر علم نہ ہو کہ وہ کس ٹریک پر ہیں توافسوس ایسی کارکردگی پر!
بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ اصل مدعا یہ ہے کہ "Right man for the right job"۔ اگر اس مقولہ پر عمل کیا جائے اور قومی وسائل پر کوئی سودے بازی نہ کی جائے تو بھرپور قدرتی وسائل رکھنے والے ملک کے لئے کسی IMFپیکیج کی قطعاً ضرورت نہیں۔ لیکن کیا کریں؟ کمی ہے تو نیک نیتی کی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کو پرکھیں تو ان میں سے بڑی تعداد ڈیول نیشنل کی حامل نظر آئے گی۔ انھوں نے اپنے بچوں کو باہر ممالک میں ایڈجسٹ کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے 40/50 ارب روپے سالانہ کے بجٹ سے بھی انہی کے خانوادے فائدہ اٹھا جاتے ہیں اور قوم کے حصہ میں صرف نعرے آتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی ملک وقوم کی ترقی کے لئے منصوبہ بندی کی۔ یہ کوئی بڑی راکٹ سائنس نہیں کہ کسی کی سمجھ میں نہ آ سکے۔ آبی وسائل کی فراوانی کی وجہ سے ہماری معیشت کی بنیاد زرعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تربیلا منگلا ڈیموں کی تعمیر کے بعد پاکستان کی معیشت نے اڑان بھری تھی اور پوری دنیا میں شور مچ گیا تھا کہ پاکستان ایشئین ٹائیگر بننے والا ہے۔ مگر جب ملک دشمنوں نے آبی وسائل کو متنازعہ بنا دیا تو ترقی کا سفر ہی رک گیا۔ موجودہ حکومت تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان میں آئی۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد جو ملکی حالات سے مایوس دکھائی دے رہے تھے، نے بھاری تعداد میں انہیں مسند اقتدار پر بٹھانے کیلئے راہ ہموار کی مگر یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ قومی وسائل کی بنیاد کو قطعی طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر ان اطراف میں تھوڑی سی توجہ بھی دی جائے تو ہماری صنعتوں کو سستا اور وافر خام مال میسر آئے گا بلکہ سستی توانائی سے ویلیو ایڈڈ اشیاء کے ڈھیر لگائے جا سکتے ہیں جس سے گلف ممالک کے علاوہ کئی دیگر ممالک باسانی ہماری منڈیاں بن سکتی ہیں۔
قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جھوٹ کی سیاست ہے۔ اسی جھوٹ کی وجہ سے آبی وسائل کی اہمیت جاننے اور سمجھنے کے باوجود صوبوں میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ اس کی بڑی وجہ ہماری سیاسی پارٹیوں کی ووٹ کیلئے کاسہ گدائی ہے۔ مسند اقتدار تک پہنچنے کیلئے یہ پنجاب میں کچھ اور دیگر صوبوں میں کچھ کہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور اب تحریک انصاف تو اقتدار کے سفر میں سب سے آگے ہے لیکن نظریاتی پارٹی کہلانے پر مصر جماعت اسلامی بھی اسی دورخی پالیسی میں نہاتی محسوس ہوتی ہے۔ رسول پاکؐ کی حدیث ہے کہ مسلمان جھوٹا نہیں ہو سکتا مگر ہم بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بھی بولتے ہیں اور اپنے آپ کو سچا مسلمان بھی کہتے ہیں۔ جھوٹ بولنے اور جھوٹی خبر دینے پر نہ تو کوئی رکاوٹ ہے اور نہ کوئی سزا بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں اسے سیاست کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔ حکام قومی مفاد کے امور کو قوم سے چھپاتے ہوئے اسے آفیشل سیکرٹ کا نام دیتے ہیں۔ یہی آفیشل سیکرٹ ہماری قوم کو اقوام عالم میں رسواء کر دیتے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف میں ریکوڈک کیس میں جس طرح پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ کیا گیا۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ مگر ان ذمہ داروں کو سزا کون دے گا؟ سزا تو قوم کو بھگتنا ہوگی جس کا یہ بھی حق نہیں کہ وہ حقیقت سے آشکار ہو سکے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے آبی وسائل کے کیس کو سپیڈی ٹرائل کے طور پر چنا۔ ان کے تحرک سے یوں محسوس ہوتا تھاکہ اب پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ مگر فیصلہ کرتے وقت کیس کی بنیاد کو ہی بدل دیا۔ بھاشا اور مہمند ڈیم تو نواز حکومت کے وقت میں ہی مشترکہ مفادات کونسل سے منظور ہو چکے تھے۔ ان کی تعمیر میں وسائل کی فراہمی کے علاوہ کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی تھی۔ بات تو کالاباغ ڈیم کے میرٹ کی تھی جس کا جناب چیف جسٹس نے اپنے فیصلہ میں بڑی شدومد سے ذکر بھی کیا لیکن پھر پٹڑی بدلتے ہوئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو موخر کرتے ہوئے بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے احکامات صادر فرما دیئے۔ معذرت کے ساتھ ان کا یہ فیصلہ کسی طور بھی پاکستان کے لئے فائدہ مند نہیں۔ عالمی ادارے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں کہ 2025سے 2030کے بعد سے پاکستان کی آبی صورتحال انتہائی خطرناک ہو جائے گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں کونسا ڈیم بن سکتا ہے۔
14 ارب ڈالر کے بھاشا ڈیم، اس کے لئے 6 ارب ڈالر کی سڑک اور 3 ارب ڈالر کی ٹرانسمیشن لائن کیلئے سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ جبکہ بھاشا ڈیم کے لئے امسال صرف 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 309 ارب روپے سے بننے والے مہمند ڈیم کیلئے بھی صرف 15 ارب روپے رکھ کر ہم کیا آبی مسائل سے چھٹکارا پا لیں گے؟ ایک اور بات کی طرف جناب چیف جسٹس نے توجہ ہی نہ دی کہ سیلابی پانی کا دباؤ تو تربیلا سے نیچے کالاباغ کے درمیان ہے۔ تربیلا سے اوپر جتنے بھی ڈیم بنا لئے جائیں۔ اس سے پانی کنٹرول کرنے کی استعداد تو بڑھ جائے گی لیکن سیلابی پانی کو کنٹرول کئے بغیر کبھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ 16 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ معاشی استحکام دینے والا کالاباغ ڈیم محض ایک سال میں اپنی قیمت پوری کر سکتا ہے جس سے قومی معیشت ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن