کراچی(کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر آغا شہاب احمد خان نے جمعہ کی شام ہونے والی موسلا دھار بارش کے بعد کراچی والوں کو پیش آنے والی مشکلات اور پریشانیوں پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی اور سندھ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کراچی والوں کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں بالکل ناکام رہے ہیں جو ہمیشہ سے موسلا دھار بارشوں، قدرتی آفات، وبائی امراض، امن و امان کے واقعات، حادثات اور دیگر ہنگامی صورتحال کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے چلے آئے ہیں۔ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ کراچی وفاقی اور صوبائی خزانے میں بالترتیب 70 فیصد اور 95 فیصد ریونیو دینے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہونے کے باوجود اس شہر کو مون سون کے سیزن میں ہر سال بار بار بہت زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن نہ تو وفاق نے اور نہ ہی سندھ حکومت نے کوئی ایک بھی قدم ایسا نہیں اٹھایا جس سے کراچی والوں کی مشکلات کم ہوسکیں اور ایسی صورتحال میںصرف زبانی جمع خرچ ہی نظر آیا جس کی وجہ سے کراچی میں رہنا ایک خوفناک خواب بن چکا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کو سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے رحمی کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ اس شہر اکے انفراسٹرکچر سمیت دیگرانتہائی سنگین مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے جس نے کراچی والوں کو جہنم کا کامزہ چکھا دیا ہے۔آغا شہاب نے باالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے تمام سیاست دانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو2008 سے اقتدار میں رہے اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پر بھی تنقید کی جو 1999 کے بعد سے مشرف کے دور سے ہمیشہ سے ایک مضبوط اتحادی اور مختلف حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم 2008 سے پی پی پی کی حکومت، 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اب 2018 سے پی ٹی آئی کی حکومت کا حصہ ہے۔ پی پی گذشتہ 13 سالوں سے اقتدار میں ہے جن میں سے 2008 سے2013 کے دور میں وفاقی اور سندھ حکومتیں ان کے پاس تھیں جبکہ ایم کیو ایم گذشتہ 21 سالوں سے مختلف وزارتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی کچھ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور انھوں نے کراچی کے معاملات کو بڑی حد تک نظرانداز کیا جو گذشتہ دو دہائیوں کے دوران شدید بحرانوں میں ڈوبا ہوا ہے اس کے باوجود یہ عظیم شہر صرف اپنی صلاحیت اور کاروباری و صنعتی برادری کی ثابت قدمی کی بنا پر کسی نہ کسی طرح اپنی بقا قائم رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پرطنز کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے لیے ایسا شاندار کام کرنے کے لیے وہ ان کے مشکور ہیں۔انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ معاشی معاملات پر سیاست بند کریں اور تاجر برادری کو یوٹیلیز اور انفرااسٹرکچر کے مسائل میں الجھانے کی بجائے اپنے کام پر توجہ دینے دیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ واقعی پریشانی کی بات ہے کہ شہر کا انفرااسٹرکچر اس حد تک خراب ہوچکا ہے کہ وہ اس بارش کو برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے جو صرف ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی لیکن جمعہ کی رات بھر کراچی والوں کے لیے پریشانیوں کا سلسلہ جاری رہا کیونکہ بارش کے بعد عوام پہلے تو کئی گھنٹوں تک سڑکوں پرپھنسے رہے اور رسوا ہوئے پھر رات بھر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل ہوئے کیونکہ کے الیکٹرک کی نااہلی کی وجہ سے کئی علاقے تاریکی میں ڈوبے رہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کی تاجر و صنعتکار برادری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ٹیکسوں، ڈیوٹیز اور دیگر محصول وغیرہ کی شکل میں اربوں روپے ٹیکس ادا کرتی رہی ہے لیکن ہمیں اس کے بدلے میں کچھ نہیں مل رہا۔دنیا بھر میں ٹیکس اس لیے ادا کیے جاتے ہیں تاکہ ان فنڈز کو بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور سہولیات کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جاسکے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی بھی حکومت کی یہ کبھی بھی ترجیح نہیں رہی جہاں تک کراچی کا تعلق ہے اس کے ساتھ بھی بے رحمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے اور وہ محرومی کا شکار رہتا ہے۔ماسٹر پلان نہ ہونے، سول انتظامیہ کا غیر مؤثر نظام اور کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی)،کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) اور کے الیکٹرک کے مابین رابطوں کے فقدان اور بارش کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے کراچی کو بری طرح سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی اور حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے طویل مدتی حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں آئندہ 20 سالوں کے لیے شہر کی موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کی خصوصی حکمت عملی وضع کی جائے۔ْکے سی سی آئی کے صدر نے تجویز پیش کی چونکہ مون سون کا سیزن ابھی شروع ہوا ہے اور مزید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے لہٰذا شہر کے پانچوں اضلاع میں فعال اور مکمل سہولتوں سے لیس ’’ رین ایمرجنسی سینٹرز‘‘ فوری طور پر قائم کیے جائیں جہاں عوام کی مدد کرنے اور بارش سے متعلق مسائل کو فوری حل کرنے کیلئے چوبیس گھنٹے کے ایم سی، کے ڈبلیو ایس بی اور کے الیکٹرک کا عملہ تعینات کیا جانا چاہیے۔مزید برآں ان رین ایمرجنسی سینٹرز کو ضروری مشینری خاص طور پر واٹر پمپنگ مشینوں سے اچھی طرح لیس ہونا چاہیے تاکہ سڑکوں پر جمع ہونے والے بارش کے پانی کو جلد از جلد نکالا جاسکے اور مون سون کے جاری سیزن کے دوران ٹریفک کی روانی کو بلا کسی رکاوٹ یقینی بنائی جاسکے نیزکے ایم سی، کے الیکٹرک، کے ڈبلیو ایس بی اور دیگر شہری محکموں کو عوام کو درپیش مشکلات کو کم کرنے کے لیے مربوط کوششیں کرنا چاہیے۔کے سی سی آئی کے صدر نے امید ظاہر کی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پاکستان کے مالیاتی اور تجارتی مرکز کو درپیش مسائل پر بھرپور توجہ دیں گی اور اولین ترجیح دیتے ہوئے مسائل کو حل کریں گی جو بغیر کسی رکاوٹ کے اس شہر کے معاشی اور صنعتی پہیہ چلانے کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے۔