چودھری شجاعت ‘ نوازشریف اور عمران خان

Jul 19, 2020

محمد نواز رضا--- مارگلہ کے دامن میں

پاکستان مسلم لیگ(ق) کے صدر و سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین کم گو سیاست دان ہیں لیکن جب بات کرتے ہیں تو اس کی گونج پورے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ 74سالہ چوہدری شجاعت حسین نے سیاست میں بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا۔ انہوں نے اپنی شرافت اور وضع داری سے ’’اپنوں اور پرایوں ‘‘ میں بہت عزت پائی ان کی شرافت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان کی مخالفت کے باوجود چوہدری ظہور الہی شہید کے قاتلوں کو معاف کر دیا۔ انہوں نے چوہدری ظہور الہی شہید سے ورثے میں’’ مہمان نوازی اور غریب پروری‘‘ پائی جسے انہوں نے آج بھی قائم رکھا ہے۔ وہ یاروں کے یار ہیں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے فاصلے پیدا ہونے کے باوجود ان کی زبان پر کبھی ان کے خلاف ایک لفظ نہیں آیا۔ جب تک ان کی صحت اچھی تھی تو وہ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر محفل سجایا کرتے تھے اب تو5ماہ سے اسلام آباد ہی نہیں لاہور اور گجرات تک اپنی سرگرمیاں محدود کر دی ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں نواز شریف سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے میں تازہ تازہ ان سے مل کر آیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’ میاں صاحب کے بقول کہ چوہدری برادراں نے زندگی بھر ساتھ دینے کا عہد کیا تھا لیکن وہ مشکل وقت میں ہمیں چھوڑ گئے تو چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی جو کھانے کی میز پر ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے نے کہا کہ ہم نے ان کو نہیں چھوڑا وہ ہمیں چھوڑ کر جدہ چلے گئے ‘‘ ۔ میں ان چند اخبارنویسوں میں سے ایک ہوں جسے چوہدری ظہور الہی کے بعد چوہدری شجاعت حسین اور اب ان کے صاحبزادے چوہدری سالک حسین (تین نسلوں) کو کور کرنے اعزاز حاصل ہے ۔ان کی محبت اور شفقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مجھ سے ملاقات کے لئے آئے تو انہوں اپنی خود نوشت ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ پیش کی۔ چوہدری شجاعت حسین جب میاں نواز شریف کے ساتھ تھے ان کی گرفتاری کے دوران بیگم کلثوم نواز اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ کو اپنی قیام گاہ بناتیں جب وہ اسلام آباد آتیں چوہدری برادران کے تمام افراد رہائش کو خالی کر دیتے جب راستے جدا ہوئے تو انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کی بنیاد ررکھی جس کے وہ آج بھی صدر ہیں انہوں نے مسلم لیگ (ن) پر میاں اظہر ، چوہدری حامد ناصر چٹھہ اور جنرل پرویز مشرف سمیت کسی کو قبضہ نہیں کرنے دیا۔
جب پیپلز پارٹی کی حکومت میں میاں نواز شریف نے چوہدری برادران کے اعزاز میں دئیے جانے والا ظہرانہ منسوخ کر دیا تو چوہدری برادران اور شریف خاندان کے درمیان ’’راضی نامہ‘‘ کی کوشش پر پانی پھر گیا۔ پھر چوہدری برادران نے ہر اس سیاسی جماعت سے قربتیں بڑھا لیں جو نواز شریف کی مخالف تصور ہوتی تھی مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے درمیان قربت ’’میرج آف کنوینس‘‘ ہی تھی لیکن چوہدری برادران نے پچھلے22ماہ سے عمران خان کے ساتھ نبھاہ رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین مختصر گفتگوکرتے ہیں لیکن پتے کی بات کرتے ہیں۔ وہ ہیں تو عمران خان کے اتحادی لیکن جو بات عمران خان کے سیاسی مفاد میں نہیں ہوتی لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیتے ہیں ۔ چوہدری شجاعت حسین کی پوری زندگی کبھی حکومت کبھی اپوزیشن میں گذری ہے۔ ان کے لئے سیاسی تخت کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ اپنے عظیم باپ چوہدری ظہور الہی کی طرح آغا شورش کاشمیری کے اس مقولہ پر یقین رکھتے ہیں جیل کاٹنے کے لئے کال کوٹھڑی کو’’ حجلہ عروسی ‘‘ سمجھ کر گزارا جائے۔ جیل کی تمام مشکلات با آسانی برداشت کی جا سکتی ہیں۔چوہدری شجاعت حسین کی سیاسی زندگی کا نچوڑ یہ ہے وہ حکومت زیادہ دیر قائم رہتی ہے جو اپنے سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ نہیں کرتی بلکہ ان کو برداشت کرتی ہے۔
سیاسی حلقوں میں چوہدری شجاعت حسین ایک متوازن شخصیت کے مالک سیاست دان کی شہرت رکھتے ہیں ۔وہ میاں نواز شریف کے ساتھ تھے انہیں سیاسی مخالفین کے ساتھ ’’جنگ و جدل‘‘ سے روکتے حتیٰ کہ انہوں نے آصف علی زرداری کو جیل بھجوانے کی بجائے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہمراہ قیام کرنے کی اجازت دے دی ۔ چوہدری شجاعت حسین مزاجاً ایک ’’صلح جو‘‘ سیاست دان ہیں۔ ان کے سینے میں میں بھی کئی راز پوشیدہ ہیں۔وہ حکومت کے اتحادی ہیں لیکن اس کاقبلہ درست رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں بعض اوقات وہ دوستانہ انداز میں حکومتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جس پر حکومت اپنی اصلاح کرے نہ کرے بدمزہ نہیں ہوتی۔ حال ہی میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ ہم سب کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور واقعات سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف ملیحہ لودھی کے خلاف ایک نظم کی اشاعت پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنے ارادہ رکھتے تھے کچھ لوگ اس کے حق میں تھے اور کچھ لوگ مخالفت کررہے تھے کہ اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا، میاں صاحب نے کہا کہ نماز کے بعد بات کرتے ہیں، نماز کے بعد میں نے دیکھا کہ جو لوگ گرفتاری کے حق میں تھے ان میں سے اکثر جا چکے ہیں تو میں نے اپنے ایک دو حمایتیوں کے ساتھ مل کر میاں صاحب سے کہا کہ ملیحہ لودھی کی گرفتاری کی صورت میں نتائج اچھے نہیں ہوں گے تو میاں صاحب نے مقدمہ بنانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اسی طرح انہوں نے گذشتہ سال مولانا فضل الرحمنٰ کا اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں بتایا کہ اس وقت بھی کچھ لوگ دھرنے والوں پر دھاوا بولنے کے حامی تھے لیکن عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا، سب ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ’’ آپ بات کریں آپ بات کریں‘‘۔ اگرچہ چودھری پرویزالٰہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے باضابطہ ممبر نہیں تھے لیکن ان سے کہا گیا کہ آپ عمران خان سے بات کریں، چودھری پرویزالٰہی نے عمران خان سے ملاقات میں مشورہ دیا کہ’’ اگر مار کٹائی شروع ہوگئی اور کوئی آدمی مر گیا توالزام لینے پر کوئی تیار نہیں ہو گا البتہ آپ کو ہر چیز کا جواب دینا پڑے گا جس پر دھاوا بولنے کا فیصلہ موخر کر دیا گیا‘‘۔
مولانا فضل الرحمن کے حکم کے منتظر تھے ، چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے بڑی دور اندیشی کا ثبوت دیا اور مولوی صاحبان اور چند قدموں پر کھڑی پولیس کے درمیان لڑائی نہیں ہونے دی اس سارے واقعہ میں ایک گلاس تک نہیں ٹوٹا۔
اب بھی چوہدری شجاعت حسین عمران خان کو ’ ’افہام و تفہیم ‘‘ کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے جس کے بعد جمیعت علماء اسلام کے ترجمان حافظ حسین احمد کا بیان آگیا ہے۔ ان کے اس بیان سے اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ اکتوبر2020ء کا دھرنا ’’سیاسی و غیر سیاسی‘‘ قوتوں کی کوششوں سے ختم تو ہو گیا لیکن دھرنے کا اختتام اپوزیشن جماعتوں کے درمیاں غلط فہمیوں کا باعث بنا جو تاحال دور نہیں ہوئیں اب دیکھنا یہ ہے حکومت چوہدری شجاعت حسین کے مشورہ کوکس حد تک پذیرائی بخشتی ہے۔

مزیدخبریں