صحافت کانٹوں کا تاج

بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ صحافت کی آزادی کو قوموں کے عروج و زوال کی شرط اول تصور کرتے تھے۔ پاکستان کی جدوجہد میں برصغیر ہندوپاک کے مسلمان صحافیوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا تھا۔ ڈان، زمیندار، نوائے وقت، احسان، منشور اور سعادت تحریک پاکستان کے ہراول دستہ میں شامل رہے اور قیام پاکستان کے بعد ڈان اور نوائے وقت۔ پھر جرائد میں اُردو ڈائجسٹ، زندگی اور پنجاب پنچ نے وقت کے حکمرانوں کی حکمت عملی اور لائحہ عمل سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں جمہوریت کی سر بلندی اور فوجی آمریتوں کے خلاف صف آراء ہو کر سلطانی جمہور کا پرچم تھامے رکھا۔ اس جدوجہد میں احمد علی خان، مجید نظامی، محمدسلیم ایڈیٹر ہلال پاکستان، الطاف حسن قریشی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، مجیب الرحمن شامی اور حسین نقی کے اسماء گرامی کا تذکرہ ضروری ہے۔
قائداعظم ؒ کی اسی خوبی کے باعث پاکستان کا قیام جسے دیوانے کا خواب کہا جاتا تھا عمل میں آیا اور اس اصول سے جب ہم منحرف ہوئے تو ہمارا مشرقی بازو بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا۔ آج باقی ماندہ پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکالنے اور ساحل مراد سے آشنا کرنے کے لئے اسی عشق و سرمستی کی ضرورت ہے جس کی بدولت ہم نے غلامی کی زنجیریںکاٹی تھیں اور واہگہ پر اپنے لہو سے ایک نئے ملک کی سرحد کھینچی تھی۔ صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے قلم سے اخوت و بھائی چارے کے جذبات و احساسات کو فروغ دینے، اتحاد و اتفاق کی بنیادیں مضبوط بنانے اور افتراق و انتشار کی قوتوںکا قلع قمع کرنے کے لئے کام کریں تاکہ پاکستان صحیح معنوں میں ہماری امنگوں اور آرزوئوں کا پاکستان بن سکے۔
اگرچہ صحافت صنعت بن گئی ہے ۔ کل اخبارات چھوٹے تھے اور ایڈیٹر بڑے اور آج اخبارات بڑے ہوگئے ہیں اور ایڈیٹر چھوٹے۔
کل اخبار اپنے ایڈیٹر کے نظریات کی بنا پر محبوب و مقبول تھا اورآج اخبار اپنی بھاری بھرکم ضخامت اور سہ رنگی طباعت کی وجہ سے قبول عام کی سند پاتے ہیں لیکن انحطاط اور زوال کے باوجود آج بھی نہ اچھے اور بامقصد اخبارات کی کوئی کمی ہے اور نہ ایسے صحافیوں کا فقدان ہے جنہیں مقاصد و نظریات اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔
باکمال صحافی وہ ہے جو تیرہ وتار ماحول میں اصولوں کی شمع کو فروزاں رکھے اور جو حکومت اور حکومتی پارٹی کے اخبارات سے وابستگی کے باوجود ان کے کالموں میں عوام کے مسائل کے حوالے سے حق و صداقت کا پرچم بلند رکھے۔ مجھے یقین ہے کہ صحافی اپنے پیشہ کی عظمت سے واقف ہیں اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ۔ ان صحافیوں کا فرض ہے کہ بااصول اور دیانت دار صحافی کا مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں جو اس پیشہ کی معراج ہے اور اپنے دامن کو کسی مادی لالچ اور وقتی مصلحت کی آلائش سے آلودہ نہ ہونے دیں اور اپنے اوپر ان لوگوں کے کردار کا سایہ نہ پڑنے دیں جنہیں مہذب اور شائستہ لوگ بلیک میل کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جن کی صحافت کو زرد صحافت کہا جاتا ہے اور جن کے نزدیک آزادی صحافت ، مادر پدر آزادی کا نام ہے کہ جسے چاہا دشنام طرازی کا نشانہ بنا لیا اور جس کی پگڑی چاہی اچھال دی اور جن کے درمیان جرأت اور دھونس کے تصور میں امتیاز مشکل ہو جاتا ہے۔
اس راہ میں اگر کوئی مشکل پیش آئے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں کیونکہ مشکلات و مصائب انسان کو زندگی کی جدوجہد میں حوصلہ اور ولولہ عطا کرتے ہیں اور صحافت تو پہلے دن سے پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا تاج سمجھی جاتی ہے۔
آخر میں ایک شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
کیا عجب میری نواہائے سحر گاہی ہے
زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن