معزز قارئین! مَیں نے 1960ء سے مسلک صحافت اپنا رکھا ہے۔ میرے ’’جدّی پُشتی پیر ومُرشد خواجہ غریب نواز ، نائب رسول فی الہند، حضرت خواجہ مُعین الدین چشتیؒ‘‘کی برکات سے مجھے پاکستان کے مختلف صدوراور وزرائے اعظم کی 'Media Teams" کے رُکن کی حیثیت سے آدھی دُنیا کاسفر کرنے کا موقع ملا۔ میری زندگی کا حاصل یہ ہے کہ ’’ مجھے ستمبر 1991ء میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کے طور پر اُن کے ساتھ خانۂ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ مجھے یقین ہے کہ ’’اِس کا کچھ نہ کچھ ثواب تو جنابِ مجید نظامی کو بھی ملا ہوگا۔
’’فرمانِ مدینۃ اُلعلم ؐ !‘‘
مسلمانوں سے مخاطب ہو کر مدینۃ اُلعلم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے فرمایا تھا کہ ’’ علم حاصل کرو ، خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے!‘‘ ۔دراصل اُس وقت چین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور لکڑی کے "Blocks" (ٹھپّوں)کے ذریعے کتابیں چھپنا شروع ہوگئی تھیں اور یقینا مدینۃ اُلعلم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کو اِس کا ادراک بھی ہوگا؟‘‘۔ باب اُلعلم حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر مسلمان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’ جو شخص تمہیں ایک بھی لفظ پڑھاتا اور اُس کی تفسیر بیان کرتا ہے تو تم اُسے اپنا اُستاد سمجھو ! اور اُس کی عزّت کرو!‘‘۔
معزز قارئین! مجھے یقین ہے کہ ’’ جس شخص ( خاص طور پر ) کسی پاکستانی کو چین کے دورے پر جانے کا موقع ملتا ہے تووہ وہاں کے ہر شعبے کے ماہرین سے کچھ نہ کچھ سیکھنے میں ضرور کامیاب ہو جاتا ہے ۔ مَیں خُوش قسمت ہُوں کہ ’’ پہلی بار اگست 1991ء میں (اُن دِنوں ) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد کی قیادت میں گیارہ سینئر صحافیوں کی "Eleven" کے رُکن کی حیثیت سے اور دوسری بار وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کرنے کا موقع مِلا۔ مَیں نے دونوں بار باب اُلعلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت کے مطابق مختلف چینی سیاستدانوں ، قانون دانوں ، دانشوروں ، صحافیوں اور غیر صحافیوں سے بھی کچھ نہ کچھ سکھنے کی ضرور کوشش کی۔
’’ فرزند ِ چاچا بختاوری!‘‘
قائداعظم کے ’’ سپاہی ‘‘ ۔ تحریک پاکستان (گولڈ میڈلسٹ) کارکن جناب غلام نبی بختاوری (میرے چاچا بختاوری ) کے فرزند ِ اوّل اور 1982ء سے میرے دوست ، اسلام آباد میں جنابِ مجید نظامی کے ’’ مُرید ِ خاص‘‘برادرِ عزیز ظفر بختاوری بیرونی ملکوں میں پاکستان کی ثقافت / تہذیب و تمدن کے فروغ کے لئے قائم چیئرمین ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ اسلام آباد کی حیثیت سے نظریۂ پاکستان کو فروغ دینے میں سرگرم ہیں ۔ وہ آٹھ بار بار عوامی جمہوریہ چین مدعّو کئے گئے اور ہر بار "Love for Pakistan" کے تحفے لائے۔
’’ملاقاتوں کا کوٹہ! ‘‘
معزز قارئین! 23 جنوری 2013ء کے ’’ نوائے وقت‘‘ کے کالم میں مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے ہر اِنسان کا دوسرے اِنسانوں سے ملاقاتوں کا "Quata" (مقررہ حصّہ ) مخصوص کِیا ہوتا ہے کہ ’’ اُس کی کب ؟ کہاں؟ اور کتنی دیر تک فلاں فلاں اِنسان سے ملاقات ہوگی؟‘‘۔ پرانے دَور میں خط و کتابت کو ’’ آدھی ملاقات‘‘ کہا جاتا تھالیکن، "Telephone VidoeLink" اور "Skype" کی ایجاد اور استعمال کے بعد تو ہماری ہر کسی سے پوری ملاقات ہو جاتی ہے ۔چکوال ، امرتسر ، سرگودھا، راولپنڈی اور اسلام آباد کے 96 سالہجناب غلام نبی بختاوری ( میرے چاچا بختاوری ) کے انتقال پر میرا کالم 12 جون کو شائع ہُوا تھا۔ چاچا بختاوری کے وسیلے سے ہی میری اُن کے فرزندِ اوّل چیئرمین ’’پاکستان کلچرل فورم‘‘ برادرم ظفر بختاوری سے دوستی ہُوئی تھی۔
’’سماجی فاصلہ !‘‘
گذشتہ دِنوں صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان ’’ چاچا بختاوری ‘‘کی تعزیت کے لئے برادرم ظفر بختاوری کے گھر تشریف لے گئے، پھر ظفر بختاوری نے مجھے بتایا کہ ’’ صدر آزاد کشمیر ، اُن کے ملٹری سیکرٹری کرنل کاشف امان ، مَیں نے اور میرے دونوں بیٹوں ، احسن بختاوری اور وقار بختاوری نے چہروں پر ’’ ماسک‘‘ لگاکہ سماجی فاصلہ (Social Distance) قائم کر رکھا ہے اور صدر آزاد کشمیر آپ سے ٹیلی فون پر بات کرنا چاہتے ہیں ‘‘ ۔ مَیں نے دونوں صاحبان کا شکریہ ادا کِیا اور کہا کہ ’’ میرے چہرے پر بھی ماسک سجا ہے اور میرے پاس بیٹھے میرے چھوٹے بھائی محمد علی چوہان اور بھتیجے قاسم علی چوہان کے چہرے پر بھی ۔
کشمیری نژاد پاکستانی سردار مسعود خان نے ایک لمبے عرصے تک مختلف ملکوں میں پاکستان کے (خصوصاً) عوامی جمہوریہ چین کے سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے مختلف قوموں سے سیکھنے اور سکھانے کا عمل کِیا ہوگا ۔ یقینا وہ بھی سیکھتے سیکھتے ایک اُستاد بن گئے ہوں گے ۔ فارسی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ ’’ شاگرد رفتہ رفتہ باستاذ می رسد ‘‘ (یعنی شاگرد آہستہ آہستہ اُستاد کے مقام تک جا پہنچتا ہے )۔ جب فریقین ( سمجھانے اور سمجھنے والوں ) کے دِلوں میں خلوص اور محبت ٹھاٹھیں مار رہا ہو تو’’کورونا وائرس ‘‘ کی ایسی کی تیسی اور ماسک کے ذریعے سماجی فاصلہ قائم ہونا بے سُود ہوگا۔ اہم نُکتہ یہ ہے کہ "Revolution Export" کرنے والا سوویت یونین تو کالعدم ہوگیا لیکن "Love Export Policy" کے حامل عوامی جمہوریہ چین کے ایک بار پھر دُنیا بھر میں ڈنکے بج رہے ہیں ۔ میرا خیال ( پختہ خیال ) ہے کہ ’’ اگر سردار مسعود خان کسی وقت پاکستان کے وزیر خارجہ ہوں گے تو پاکستان میں سماجی فاصلے تو کیا ؟ طبقاتی فاصلے بھی ختم ہو جائیں گے ؟ ۔
٭…٭…٭