ایک نئی سیاسی پارٹی بنائے جانے کیلئے اجلاس منعقد ہوا اس میں ایسے لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا جن کے خیالات سن کر انہیں پارٹی میں اعلی عہدے د ئے جانے تھے ۔اس کیلئے ان پڑھ مگر سمجھدار،ہوشیار حضرات کو بلایا گیا تھا۔ پارٹی بنانے والوں کا کہنا تھا کہ ناخواندہ اس لئے کہ جعلی ڈگریوں کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہو۔پارٹی بد نام ہونے سے بچ جائے انہوں نے بتایا کہ ہم اپنی پارٹی میں کسی ایسے بندے کو شامل نہیں کریں گے جھنوں نے بیرون ملک کا سفر کیا ہو تاکہ جیتنے کے بعد کوئی انگلی نہ اٹھائا سکے کہ اس امیدوار کے پاس دوسرے ملک شہریت رکھتا ہے ۔ اردو زبان کو ہم قومی زبان ماتے ہیں لہذا یہاں ہر کوئی اپنا اظہار خیال اردو مین ہی کرے گا ۔ اس موقع پر ملکی معیشت کی بہتری م کرونا وائرس کے کنٹرول ، تعلیم اور صحت کے بجٹ کے بارے میں تجاویز ہمیں دیں ۔ جس نے سب سے اچھی تجویز دی اسے پارٹی میں اعلی عہدہ دیا جائے گا اور ایسے ہی شخص کو جب پارٹی اقتدار ر میں آئے گی اسے وزارت سے بھی نوازہ جائے گا ۔لہذاسب نے بڑھ چڑ کر حصہ لیا ۔ان سب میں ایک ایسا بھی شخص تھا جس کی باتوں کو سب نے غور سے سنا ۔اس کا کہنا تھا کہ سائیکل ملکی معیشت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ اگر کسی ملک نے ترقی کرنا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک میں سائیکل کا استعمال بلکل بند کر ا دیا جائے۔کہا اگر ایسا ہو گیا توپھر دیکھے گا ملکی معیشت میں کیسے بہتری نہیں آتی ۔ اس نے سائکل چلانے کے ملکی نقصانات بتاتے ہوئے کہا کہ سائیکل چلانے والا کار نہیں خریدتا ، قرض نہیں لیتا ۔ کار میں پیٹرول نہیں ڈلواتا، کار کی انشورنس نہیں کرواتا۔گاڑی کی سروس نہیں کرواتا۔مرمت نہیں کرواتا۔ٹول پلازوں پر ٹیکس نہیں دیتا۔سائیکل چلانے والا صحت مند رہتا ہے۔وہ موٹا نہیں ہوتا،بیمار نہیں رہتا ۔ لہذا ایسا شخص اسپتال نہیں جاتا۔ ڈاکٹروں سے چیک اپ نہیں کرواتا۔ ادوایات نہیں کھاتا۔جس کی وجہ سے ملکی جی ڈی پی سے وہ دور رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں فاسٹ فورڈ کا مالک اپنے ملازمین کے علاوہ تیس بندوں کو مزید نوکریاں دینے کا سبب بنتا ہے۔ ان میں ڈاکٹر ز حکیم ، میڈیکل سٹور مالکان شامل ہیں ۔ یہ سب چیزیں بتاتی ہیں کہ سائیکل قومی معشیت کے لئے نقصان دہ ہے ۔ اسی طرح ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے والوں میں کھیلوں کے میدان ،پارک ہیں لوگ پیدل چلتے ہیں ،سیر کرتے ہیں ۔ ہیلتھ کلبوں سے بھی لوگ صحت مند رہتے ہیں۔لہذا ایسی تمام چیزیں جس سے انسان تندرست صحت مند ر ہتا ہے ، ان سب پر مکمل پابندی لگا دی جائے تاکہ ملکی معیشت ٹھیک رہے۔ اس کے بعد دوسرے ایشیو کے بارے میں تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کرونا کو ٹونٹی ٹونٹی میچ سمجھ کر اس سے مقابلہ کرنا ہو گا ۔جس طرح ہار جیت جس طرح سے گیم کا حصہ ہوتی ہے ،اسی طرح کرونا کو بھی بیماریوں کا حصہ سمجھا جائے ۔ کرونا سے نجات کیلئے دیسی علاج جاری رکھیں ۔ پنساری کی بتائی گئی دیسی جڑی بوٹیوں استعمال کریں ۔ اگر کرونا کا مریض دیسی علاج سے ٹھیک نہیں تو اسے اپنے علاقے کے صحت مند پیروں کے آستانے پر بھیجا جائے ۔ حکومت پیر صاحب کو اس پرسبسڈی دے گی۔اگر تو کرونا کے اچھے رزلٹ دنیا کو دکھانے ا ہیں تو ملک کی تمام ٹیسٹ کرنے والی لیباٹری بند کر دی جائیں۔نہ لیباٹری ہونگی اور نہ ہی کرونا رزلٹ سامنے آئیں گے ۔ہماری عوام بڑی حوصلہ مند ہے ۔ہمارے ہاں کے کسی بچے کااگر ٹمپریچر سو ہو بھی جاتا ہے تو بچہ اس حالت میں بھی کھیلتا رہتا ہے۔بڑے تو اس کی پرواہ بلکل نہیں کرتے ۔جہاں تک چھینک مارنے کا ہے ۔تو یہ اللل کی نعمت سمجھا جائے ۔ہمارے لوگ تو اکثر چھنکیں مارتے رہتے ہیں کچھ تو اس زور سے یہ چھینک مارتے ہیں کہ قریب بیٹھے پرندے اڑ جاتے ہیں ۔آس پاس کے لوگ گھبرا جاتے ہیں ۔جو چھینک مارتا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے اس کے عزیز و اقارب نے اسے یاد کیا ہو گا ۔انہی لوگوں کو یہ چھنکیں آتی ہیں جھنے کوئی یاد کرتا ہے ۔ چھنکیں مارنا یا آنا یہ بھی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔اس لئے چھنک مارنے والا اللل تعالی کا شکر ادا کرتا ہے ۔ کرونا کو زکام فلوجیسا ہی سمجھا جائے۔ کام کاج پر پابندی نہ لگائی جائے۔ بیمار ہوتے رہے گے اور خود ٹھیک بھی ہوتے رہے گے۔سب سے کم بجٹ تعلیم اور صحت کا رکھنا چائیے ۔ اگر تعلیم کم ہوئی تو لوگوں میں احساس کمتری ، دوسروں کے بارے میں معلومات ختم ہو جائیں گی ۔ ہر ایک کو سو تک کی کنتی لازمی سکھائی جائے گی تانکہ ہر کوئی اپنا حساب خود کر سکے۔دینی بغدادی قاعدہ ہر ایک کو پڑھا جائے گاتانکہ مختلف ملکی زبانوں کو سمجھ سکھیں اور بول سکیں ۔لکھ سکیں ۔ شاعری کر سکیں ۔ اس سے زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ۔ صحت کیلئے ضروری ہو گا کہ ہر گھر میں دیسی ادوایات ڈبوں میں رکھی جائیں۔ ہر گھر میں مرغی ضرور رکھنے کا کہا جائے گا تاکہ انڈہ مرغی ہر کوئی کھا سکے ۔ کٹے کٹیاں رکھنے کیلئے حکومت فنڈ دے گی ہر جگہ ریلو کٹوں کے ساتھ ساتھ یہ دیسی کٹے بھی ہونگے تو ہم خوب ترقی کریں گے ۔ملک میں تمام جہاز کا غذی اڑائیں جائیں گے ۔ تا کہ ہر کوئی بغیر لائسنس کے اڑا سکے ۔ ایسا کرنے سے دنیا کی بد نامی سے ہم بچے رہے گے ۔ ملک میں سبزی کی دوکانیں ختم کر دے جائیں گیں تاکہ ہر کوئی سبزیاں خود اگائے اور خود کھائے کے فارمولے پر عمل کر سکے۔کہا عدالتوں میں کوئی پڑھا لکھا جج نہیں لگایا جائے گا ۔ ایسے بندے جج ہونگے جو دلیر روپ دھپ والے ہوں گے ۔ان ججوں کے تمام فیصلے کمپوٹر کیا کرے گا ۔ جج صا حب صرف کمپیوٹر پر ا نگلی رکھا کریں گے ۔یہ سن کر ایک اسی سالہ بابا کھڑا ہو گیا کہا لوگوں عدالتوں کا برا حال ہے۔میراآج عدالت میں ساٹھ سالہ ایک پرانا کیس تھا۔ جج نے مجھ سے کہا اس عمر میں چھیڑخانی کرتے ہو۔ تم معافی کے لائق نہیں ہو ۔میں نے کہا سر میری بھی تو سنیئے ۔ میں نے کہا جج صاحب یہ مقدمہ ساٹھ سال پرانا ہے ۔ جس کو چھیڑا تھا وہ بھی اب اپنے پوتے کے ساتھ عدالت میں بیٹھی ہے ۔ بھلا ہو اس بڑھیا کا جس نے آواز بلند جج صاحب کو کہا میں نے اس کو چھیڑ خانی کرنے پر معاف کیا ۔ یہ سن کر کہا گیا عدالت آج نورے کو با عزت بری کرتی ہے۔ نورے نے کہا آج میں اسی سال کا ہو چکا ہوں ۔ زندگی کے ساٹھ سال جیل میں گزار کر آیا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرا وہی کچھ ہے جو میں نے آج کھا لیا پی لیا اور پہن لیا باقی سب ان کا ہے جو مجھ پر قبر میں مٹی ڈالنے آئیں گے۔