جو انسان عظیم ہوتا ہے، اس سے متعلق ہر چیز اور ہرکام میںکوئی نا کوئی عظیم بات ہوتی ہے۔ اس دور کی عظیم شخصیت حضرت علّامہ طالب جوہری مرحوم کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنابہت مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔مثلاََ اگر آپ ان کے علم کے بارے میں بات کریں تو آپ کا خودبڑے علم کا مالک ہونا ضروری ہوگا۔ یہ یقیناََ مشکل امر ہے۔ ان کے متعلق کچھ لکھنا آسان اس صورت میں ہوگا ،اگر آپ ان سے ملاقات یاکسی گفت و شنید کے دوران حاصل کردہ خوشگوار یا اہم تجربے کا ذکر کر یں یا تحریر میں لائیں۔ مجھے قبلہ سے کئی بار ملنے کا شرف حاصل ہے۔ہر ملاقت میں انکی عظمت کے جو پہلومیرے سامنے آئے ان میں سے ایک دوکے بارے میںچندباتیں سپردِ قلم کرنا یقیناََ میرے لئے بڑی سعادت ہوگی ۔ ایک ملاقات میں،جو ان کے گھر پر حاضری کے دوران ہوئی اس میں نظریۂ اضافت پر بات شروع ہوگئی ۔وقت انکے پاس بھی کم تھا اور مجھے بھی کہیں جاناتھا۔ اس لئے فرمانے لگے میں چاہتاہوں کہ اس پر سیر حاصل بحث ہو اور جو سوالات میرے ذہن میں ہیںان کے جواب مل سکیں۔یہ بات قبلہ کے علم میں تھی کہ میں طبیعیات کا پروفیسر ہوں اور مقامی کالج کا پرنسپل ہوں۔میں نے کہا یقیناََ حاضر ہوں گا جب آپ بلائیں گے۔ پھر میں نے کہا کہ بہت اچھّا ہوتا اگر میں کو ئی کتاب نظریۂ اضافت پر اردو میںآپ کو فراہم کرسکتا ۔تاکہ آپ اس کو پڑھ کر اس نظریۂ سے کافی حد تک واقف ہو جاتے۔ مگر شاید اردو میں کوئی کتاب نظریۂ اضافت پر ہے ہی نہیں۔ یہ سنّا تھا کہ قبلہ اٹھّے اور کہیں گئے۔ چند سیکنڈکے بعد تشریف لائے اور ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جس کا ٹائٹل تھا نظریۂ اضافت اور وہ اردو میں تھی اور اس کے مصنّف پروفیسر منہاج الدین اور پروفیسر چراغ الدین تھے۔میں دونوں پروفیسروں سے واقف تھاکیونکہ منہاج الدین صاحب پشاور اسلامیہ کا لج میں پڑھاتے تھے اور چراغ الدین صاحب کیمبل پور میں پرنسپل تھے۔ یہ دونوں آپس میں بھائی تھے۔پشاور میں ان کی لکھی ہوئی فزکس کی کتاب کالج میں پڑھائی جاتی تھی۔ جوہری صاحب مرحوم نے کتاب کو کھو لا اور کافی صفحات پلٹنے کے بعد ایک ایسے مقام پر آئے جہاں ایک دائرے کی شکل تھی اور سینٹری پٹل فورس کی کیلکو لیشنز موجود تھیں۔فرمانے لگے کہ یہ کیاہے ۔ میں نے وضاحت کی کہ یہ اس قوّت کا فارمولا ہے جو ایک شے کے دائرے میں گھمانے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ا س واقعے سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ علم سے قبلہ جوہری صاحب مرحوم کا کتنا گہراتعلق تھااور کتابوں سے کس درجہ کا لگائو تھا کہ نظریۂ اضافت پر اردو میں کتاب بھی انکی لائبریری میں تھی اور انہو ں نے اس کو کم از کم اس حد تک پڑھا ہوا تھا جہاںسے پیچیدہ کیلکولیشن شروع ہوئی تھیں۔ اس واقعے کے دوران یہ بات بھی میرے علم میں آئی کہ قبلہ کے پاس لائبر یری بھی ہے اور میرے دل میں اشتیاق پیدا ہوا کہ اس لائبریری کو دیکھاجائے جہاںنظریۂ اضافت پربھی کتاب اردوزبان میں موجود ہے ۔لائبریری کی زیارت یوں نصیب ہوئی کہ میرے ایک دفتری مسئلے میں قبلہ نے مدد فرمانے کا وعدہ کیا۔ ایک دن قبلہ کی طرف سے پیغام آیا کہ آج تین بجے چیف سیکریٹری ان سے ملنے آرہے ہیں۔ اور میں(طاہر حسین) ان کے پا س آجائوں۔وہ چیف سیکرٹری صاحب سے میرے مسئلے کے سلسلے میںمیرے سامنے سفارش کر یںگے۔ یہ بھی بتا یا گیا کہ چیف صاحب کوئی خاص بات مولانا سے کریں گے ۔ اس لئے مجھے دوسری جگہ بٹھایا جائے گا اور جب چیف صاحب بات ختم کرلیں گے تب مولانا مجھے اس کمرے میں بلوائیں گے جہاں چیف صاحب ان سے مل رہے ہوں گے ۔اور میرا مسئلہ ان کے سامنے رکھیں گے چنانچہ ہدایات کے مطابق جب میں قبلہ کے گھر پہنچا تو مجھے انتظار کرنے کے لئے لائبریری میں بٹھایا گیا ۔ اس طرح مجھے اس لائبریری کی زیارت کا موقع ملا۔ ایک بڑے کمرے میں چاروں طر ف قدآدم الماریوں میں مختلف موضوعات پر کتابیں ایک عالم کی علم دوستی کا ثبوت فراہم کر رہی تھیں اب ایک نہایت اہم واقعہ تحریر کرنے جارہا ہوںجو شاید میری اس تحریر کااصلی ہدف ہو۔میں ۱۹۹۶ میں ڈائریکٹر کالجز کراچی بنا۔پروفیسر سیّد غلام عبّاس مرحوم میر ے پاس آئے اور کہنے لگے ایک بہت احسن کام آپ کرسکتے ہیں اگر آپ میرے کہنے پر عمل کریں۔میں نے کہا فرمائیے وہ احسن کام کیا ہے۔ بولے آپ کو معلوم ہے طالب جوہری صاحب ناظم آباد گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے تھے ۔ ان کو نہ کوئی پینشن ملی نہ ہی کوئی فنڈ۔ آپ ان کی پینشن اور واجبات دلوایئے۔ عبّاس صاحب نے مزید کہا کہ قبلہ خود اس بارے میں آپ سے کبھی کچھ نہیں کہیں گے۔ میں نے کہا ، مجھے معلوم ہے کہ قبلہ ناظم آباد کالج میں پڑھاتے تھے۔ کیونکہ ان کے کچھ ساتھی پروفیسروں نے کالج میں انکی مقبولیت ،پر مزح جملے اور پر مغز گفتگو کے بارے میں مجھے بتایاتھا۔ میں نے مزید کہا، کیا خبر میرے خود پینشن کے کام کو شروع کرنے کے معاملے کو وہ پسند نہ فرمائیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کیس کو شروع کرنے کے لئے کچھ معلومات ان سے لینی پڑیں گی۔ عبّاس صاحب مرحوم نے کہا کل مزید اس موضوع پر بات کریں گے۔دوسرے دن عبّاس صاحب نے کہا ـ، آپ قبلہ جوہری صاحب کو فون کرلیں۔میرے فون کے جواب میں انہوں فرمایا میں باقاعدہ کالج جاتا تھا۔ ایک دن سندھ کے وزیرِاعلیٰ سیّد غوث علی شاہ مجھ سے ملنے میرے گھر آئے اور فرمانے لگے کہ کل سے آپ کالج نہیں جائیں گے اور اس ہدایت پر کافی زور دیا۔ وزیر اعلیٰ کا بذاتِ خود ہدایت دینا ایک اہم بات تھی، اس میں سیکیورٹی کا پہلو بھی ممکن ہو سکتا تھا۔ میں نے کالج جانا بند کردیا اور پھر مجھے لا کمیشن کا ممبر بھی بنا یا گیا جتنا عرصہ میں نے وہاں کام کیا وہ وقت بھی سروس کا حصّہ بنتا ہے میں نے دفتر میں نہایت قابل اور سینئراسسٹنٹ ڈائریکٹر مسٹر عزیز کو بلا کر پینشن کا کام ان کے حوالے کیا۔اور یہ بھی بتایا کہ اس کام کی میرے نزدیک بہت اہمیت ہے۔مسٹر عزیز نے کہا تین چار دن دیجئے۔میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ تین چار دن کے بعد مسٹر عزیز میرے پاس چند فائلوں کے ساتھ آئے اور بتایا کہ جوہری صاحب کی جو سروس ہمارے ریکارڈ پر ہے اس کا عرصہ کسی طرح بھی اس عرصے کے برابر نہیں بنتا جو پینشن کے لئے ضروری ہوتاہے۔ چیف منسٹر کی ذاتی ہدایات کا کوئی ریکارڈ نہیں اور اگر اس معاملہ کو اٹھایا جائے تو یہ کافی مشکل ہوگا۔ اس کے بعد مسٹر عزیز نے مجھے ایک فائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جس میں ایک خاتون پروفیسر نے وزیراعظم سے اپنی پنشن کے لے خصوصی اجازت لی تھی اگر مولانا صاحب بھی اپنے کیس میں وزیرِ اعظم سے اسپیشل منظوری لے لیں توان کو بھی کل فوائد مل سکتے ہیں۔ میں نے یہ صورتِ حال قبلہ کو فون کر کے بتائی ۔جواباََ کہنے لگے میں کبھی اس شخص سے کسی فائدے کے لئے درخواست نہیںکرسکتا۔ اللہ کا کرم ہے ۔اس نے بہت دیا ہے۔ آپ اس ضمن میں مزید کام نہ کریں۔ مجھے پینشن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس کام کو یہیں بند کردیں۔میں حیران ہوا کہ اپنے جائز حق کو بھی قبلہ نے لینے سے انکار کردیا جس میں انکے لاکھوں روپے کے فوائد تھے۔ایک اور واقعہ یہ ہے کہ گلشن کالج ۔جہاں میں ڈائریکٹر بننے سے پہلے پرنسپل تھا۔ وہاں ہیڈ کلرک ایک صاحب تھے جن کو سیّد صاحب کہا جاتا تھا۔ وہ مجلس میں قبلہ جوہری صاحب کے منبر کے قریب بیٹھتے تھے اور زور زور سے نعرے مجلس کے دوران لگاتے تھے۔وہ دفتر سے اکثرغیر حاضر رہتے تھے ا ور بیمار بھی ر ہتے تھے اور معاشی طور پر بھی کمزورتھے۔ ایک دن ازراہِ مذاق میں نے ان سے کہا کہ آپ نے تو بہت زیادہ قبلہ جوہری صاحب کی مجالس میں نعرے لگائے ہیں۔کیا آپ نے قبلہ کے پاس جاکر اپنی بیماری اور تنگدستی کا ذکرکیا ہے۔ وہ خاموش رہے۔ ایک دو دن بعد سیّد صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے ،میں جوہری صاحب کے پاس گیا تھا۔انہوں نے میری حالت دیکھ کر مجھے دس ہزار روپے دیئے ہیں۔ یہ ذکر ۱۹۹۴ کا ہے ، اس وقت دس ہزار خاصی بڑی رقم ہوتی تھی۔ آخری ملاقت قبلہ سے اس وقت ہوئی جب میں اپنی مرثیوں کی کتاب زبورِ عقیدت دینے گیا تھا۔