کلبھوشن یادیو کیس: وزارت قانون کی آرڈیننس قومی اسمبلی میں پیش کرنیکی تجویز

اسلام آباد:   بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی خفیہ ایجنسی کے را کے جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے پر اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، وزارت قانون نے آرڈیننس قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی تجویز دیدی ہے۔

تفصیلات کے مطابق’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016ء کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق کلبھوشن یادیو کیس کے معاملے پر اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، وزارت قانون نے آرڈیننس قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی تجویزی دیدی ہے، یہ آرڈیننس جلد قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ وزارت قانون آرڈیننس کی مدت کل رات بارہ بجے ختم ہو جائے گی۔

اُدھر وزارت قانون نے کلبھوشن یادیو سے متعلق آرڈیننس خاموشی سے جاری کرنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سزا کے خلاف اپیل کیلئے جاری آرڈیننس میں کوئی بد نیتی نہیں، بھارت کلبھوشن یادیو کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر گیا۔

ترجمان وزارت قانون کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ دیا کہ کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دیا جائے۔ عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے آرڈیننس جاری کیا گیا۔ ماضی میں حکومتیں اسی طریقے سے آرڈیننس جاری کرتی رہیں۔

خیال رہے کہ دسمبر 2017ء میں پاکستان نے کلبھوشن کے لیے ان کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے انتطامات کیے تھے۔ یہ ملاقات دفترِ خارجہ میں ہوئی جہاں کسی بھی بھارتی سفیر یا اہلکار کو کلبھوشن کے اہلِ خانہ کے ساتھ آنے کی اجازت نہیں تھی۔ مذکورہ ملاقات کے دوران کلبھوشن یادیو نے اپنی اہلیہ اور والدہ کے سامنے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا تھا۔اس سے قبل پاکستان نے بھارت کی خفیہ ایجنسی  را  کے زیر حراست اور سزا یافتہ ایجنٹ کمانڈر کلبھوشن یادیو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ کرلیا۔

دفتر خارجہ کے جاری بیان کے مطابق پاکستان میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کے حوالے سے بھارت کو رسمی طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے بھارتی جاسوس کو سیکیورٹی اہلکاروں کے بغیر قونصلر رسائی دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے بتایا کہ قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر کیا گیا اور اس سلسلے میں بھارت کے جواب کا انتظار ہے۔

خیال رہے کہ 8 جولائی کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل جنوبی ایشیا، سارک زاہد حفیظ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے بتایا تھا کہ پاکستان نے بھارت کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی کی پیشکش کی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا تھا کہ پاکستان نے کلبھوشن یادیو کی اہلیہ اور والد سے ملاقات کی بھی پیشکش کی ہے۔ کلبھوشن یادیو نے اپنی سزا کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بجائے اپنی زیر التوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا فیصلہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی پاکستان نے بھارتی ہائی کمیشن کے 2 اہلکاروں کو کلبھوشن تک رسائی دی تھی تاہم سفارت کاروں نے اس کی ایک نہ سنی اور چلے گئے۔اس سے قبل ستمبر 2019 میں کلبھوشن یادیو کو دی گئی پہلی قونصلر رسائی ویانا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت دی گئی تھی جو 2 گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔

ملاقات کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا تھا کہ بھارت کے 2 سفارت کاروں کو قونصلر رسائی دی گئی، کلبھوشن بار بار انہیں پکارتا رہا اور کہتا رہا کہا کہ اس کی بات سنی جائے۔

انہوں نے کہا تھا کہ قونصلر رسائی کی ضرورت کے مطابق تمام اقدامات اٹھائے گئے لیکن بھارتی سفارت کاروں نے کلبھوشن تک رسائی کے بجائے راہ فرار اختیار کی۔

وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ بھارتی سفارتکاروں کا رویہ حیران کن تھا، سفارت کاروں نے کلبھوشن سے بات ہی نہیں کرنی تھی تو رسائی کیوں مانگی۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی سفارتکاروں کو درمیان میں شیشے پر اعتراض تھا وہ بھی ہٹا دیا، انہوں نے آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ پر اعترض کیا وہ بھی نہیں کی، بھارتی سفارت کاروں کی تمام خواہشات پوری کیں پھر بھی وہ چلے گئے تھے۔

ایک بیان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کی بدنیتی کھل گئی ہے یہ رسائی نہیں چاہتے تھے، انہیں شیشے پر اعتراض تھا وہ بھی ہٹادیا، ہم نے یہ بھی کہا کہ ایک کے علاوہ باقی سیکیورٹی اہلکار بھی ہٹادیتے ہیں۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کے پیش نظر کلبھوشن یادیو کو بالکل تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے، پتا نہیں کیا کرلیتے۔

یاد رہے کہ بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد  را  کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعدازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی  اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن