افغان جنگ۔ کون جیتا کون ہارا؟

گزشتہ بیس برس کے دوران افغان جنگ نہ صرف عالمی سیاست بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین اور بنیادی حصہ رہی ہے۔ 11 ستمبر 2001ء کے بعد، امریکہ نے اپنی تمام تر قوت اور اپنے تمام دوستوں اور حواریوں کے ساتھ ملکر افغانستان حملہ کر دیا تھا۔ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی اور امریکہ نے الزام لگایا تھا کہ طالبان حکومت اور اس حکومت کے زیر سایہ القاعدہ، امریکہ کی سلامتی اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ اسکے بعد امریکہ نے اپنا ہر قسم کا اسلحہ ، گولہ بارود افغانستان پر آزمانا شروع کر دیا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہو گئی لیکن وہاں نہ تو امن قائم ہو سکا اور نہ طالبان کا خاتمہ ہو سکا۔ بیس سالہ جنگ میں چوبیس ہزار کے قریب امریکی فوجی افغانستان میں مارے جا چکے ہیں اور اس جنگ پر کم ازکم ساڑھے آٹھ سو ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکہ اور اسکے حواری اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ جنگ عملی طور پر انکے لیے لا حاصل ہے اور انہوں نے آخر کار افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے براہ راست طالبان سے مذاکرات شروع کئے اور29 فروری 2020ء کو دونوں فریقوں کے ما بین ایک معاہدہ ہو گیا جس کے دو اہم ترین نکات ہیں جو پبلک کئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ امریکی افواج2021ء کے وسط تک افغانستان سے نکل جائیں گی ۔ اور دوسرا یہ کہ طالبان نے امریکہ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ القاعدہ یا کسی اور گروہ کو افغانستان کی سر زمین ایسی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے جو امریکہ یا اسکے ساتھیوں کی قومی سلامتی کے خلاف ہوں۔ اسکے لیے طالبان کس قسم کے عملی اقدامات کریں گے اس بات کی اس معاہدے میں کوئی وضاحت یا پابندی نہیں ہے۔اس کے علاوہ اگر کوئی اہم نکات معاہدے میں موجود ہیں تو انہیں خفیہ رکھا جا رہا ہے۔
یہاں عجیب بات یہ ہے کہ اس معاہدے اور بات چیت میں افغان حکومت شریک تک نہیں تھی۔ طالبان اور افغان حکومت کے مابین پہلی باقاعدہ ملاقات 12 ستمبر 2020ء کو دوہا (قطر ) میںہوئی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔ اس کے بعد بھی کچھ رابطے ہوئے لیکن سب بے نتیجہ رہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے مابین ہونے والے رابطوں میں دو نکتے زیر بحث آتے رہے ہیں۔ ایک تشدد اور فوجی کاروائیواں کا فوری خاتمہ، اور دوسرا یہ کہ آنے والے دنوں میں افغانستان کا نظام حکومت کیسا ہو گا؟ موجودہ افغان حکومت ایک ایسا جمہوری نظام چاہتی ہے ، جس میں افغانستان ایک اسلامی ملک تو ہو گا لیکن تمام قوانین کا شریعت کے مطابق ہونا ضروری نہیں ہو گا۔ یہ اسی قسم کا نظام ہے جو پاکستان سمیت اکثر اسلامی ممالک میں اس وقت نافذ ہے۔ اس نظام میںافغان حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر خواتین کو کافی زیادہ آزدی حاصل ہو اور اسکے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے نام پر ہر قسم کی مذہبی اور دیگر اقسام کی آزادی دی جائے۔ یہ سب دراصل اسی قسم کے مطالبات ہیں جو مغربی ممالک اپنے پے رول پر موجود NGOs اور خواتین کی تنظیموں سے پاکستان اور دیگر ممالک میں کرواتے رہتے ہیں۔طالبان نے اگرچہ ابھی کوئی ایسا واضح اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ کس قسم کا نظام حکومت چاہتے ہیں اور نہ ہی امریکہ طالبان معاہدے کی پبلک کی گئی شکوں میں اسکا کوئی ذکر ہے۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان چاہے اپنی پچھلی حکومت کی نسبت زیادہ ’’ لبرل‘‘ ہوں لیکن پھر بھی وہ صرف ایسے نظام حکومت کی حمایت کریںگے جو اسلامی نظام کے قریب ترین ہو۔ طالبان کے مطابق گزشتہ بیس برس کی جنگ کے دوران انکا پہلا مقصد افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ہے اور دوسرا مقصد افغانستان میں ایک اسلامی حکومت کا قیام ہو گا۔ اس دوران امریکہ نے یہ کوششیں بھی کیں کہ افغانستان میں ایک مشترکہ عبوری حکومت قائم ہو جائے جو تمام افغان گروپوں کے لیے قابل قبول ہو۔ مجوزہ امریکی منصوبے میں ایک شک یہ بھی تھی کہ ایک نیا صدر چنا جائے جو موجودہ افغا ن حکومت اور طالبان دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ اس وجہ سے یا کسی اور وجہ سے، بہر حال اس امریکی منصوبے کو افغان صدر اشرف غنی نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ طالبان نے بھی اس قسم کی کسی مشترکہ حکومت کے قیام میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ اسکی وجہ غالباََ یہ تھی کہ انکو ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ افغان حکومت کے دعویٰ کے برخلاف زمینی حقائق یہی نظر آ رہے ہیں کہ افغان افواج زیادہ دیر تک طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور وہ وقت دور نہیں جب افغانستان پر ایک بار پھر طالبان کی حکومت ہو گی۔ رہی بات موجودہ افغان حکومت کی، تو امریکہ اور طالبان نے اپنی بات چیت اور معاہدے میں افغان حکومت کی علامتی شراکت بھی ضروری نہیں سمجھی ۔ امریکہ کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں کسی بھی دہشت گرد سے کسی صورت مذاکرات نہیں کرے گا۔ طالبان سے نہ صرف مذاکرات بلکہ اسکے بعد معاہدہ کر کے امریکہ نے بالواسطہ طور پر یہ بھی قبول کر لیا ہے کہ طالبان دہشت گرد نہیں بلکہ ایک مضبوط اور جائز فوجی اور سیاسی طاقت ہیں۔ لاکھوں معصوم بے قصور افغان شہریوں کے قتل کے علاوہ امریکہ کو اس جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔دوسری جانب اس جنگ میں طالبان کا بنیادی مقصد افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا تھا۔ یہ مقصد وہ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ انکا دوسرا مقصد یعنی اسلامی ریاست اور نظام کا قیام بھی انکی پہنچ سے بہت زیادہ دور نہیں۔ اب آپ خود بتائیں کہ اس جنگ میں مکمل فتح کس کی ہوئی اور مکمل طور پر اور شرمناک شکست کس کے حصے میں آئی؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...