نئی دہلی (اے پی پی) رواں برس فروری میں جب امریکی پوپ اسٹار ریحانا نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بھارتی کسانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا اور مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تو سوشل میڈیا بالخصوص مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارتی کسانوں سے ہمدردی ظاہر کرنے کے لئے غیر ملکیوں کی قطاریں لگ گئیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس واقعے سے بھارتی حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید تنائو پیدا ہوگیا۔ سائوتھ ایشین وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں کہاکہ نئی دہلی کے اصرار کے باوجود ابتدائی طور پر ٹوئٹر نے متنازعہ ٹوئٹس ڈیلیٹ نہیں کیں اور مودی کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف بھی یہ کہہ کر کارروائی نہیں کی کہ یہ آزادی رائے کا معاملہ ہے۔ تاہم بھارتی حکومت نے سینکڑوں تنقیدی ٹوئٹس کو بلاک کر دیا۔ بعدازاں ٹوئٹر نے بھارتی حکومت کے شدید اعتراض پر کچھ ٹوئٹس بلاک کر دیں۔ اسی دوران بھارتی حکومت نے انٹرنیٹ سے متعلق قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بالخصوص فیس بک اور ٹوئٹر کو براہ راست مودی حکومت کے رحم و کرم پر لا کھڑا کیا۔مودی حکومت کا کہنا ہے کہ نفرت انگیزی، غلط معلومات اور جھوٹی خبروں کے پھیلائوکو روکنے کی خاطر یہ ترامیم ناگزیر تھیں تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کو پریشانی لاحق ہے کہ یہ نئے قوانین سنسر شپ کا موجب بنتے ہوئے ناقدین اور حکومتی مخالفین کی آوازیں مکمل طورپرنہ دبا دیں۔ یہ امر اہم ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما نریندر مودی کے 2014ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں ڈیجیٹل آزادی سکڑتی جا رہی ہے۔ بھارتی پولیس نے ملک میں ٹوئٹر کے دفاترپر چھاپے مارے اور بھارت میں ٹوئٹر کے سربراہ منیش مہیش واڑی پر الزامات عائد کیے کہ وہ نسلی منافرت اور بھارتیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق بھارتی حکومت اس طرح سے ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مودی حکومت کی طرف سے متعارف کرائے گئے نئے قوانین ان کمپنیوں کے لیے باعث تشویش ہیں۔
قوانین میں تر امیم، فیس بک، ٹوئٹر مودی سرکاری کے رحم و کرم پر آگئے
Jul 19, 2021