افغان جنگ کا مفاہمتی حل اور ریٹائرد میجرعامر

   ہم مختصرسی بات کہے دیتے ہیں کہ اس وقت ملکی سلامتی کے تحفظ کیلئے جو سب سے بڑا اور اہم ترین مسئلہ ہے وہ افغانستان جنگ کے خاتمے ہی نہیں اس کے حل کیلئے ایک ایسی منصوبہ سازی اور حکمت عملی کی تیاری ہے جو کسی اور کو ہو نہ ہو مگر طالبان کے لئے قابل قبول ضرورہو اور اگر تمام سٹیک ہولڈرز بھی اس منصوبہ کو قبول کر لیں تو یہ اور بھی بہتر تصور ہوگا  ۔ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کو دیکھا جائے تو تو یہ وہی افغانستان ہے جہاں آج سے تقریباً انیس بیس برس پہلے سویت یونین کی افغانستان میں ہار کے بعد طالبان برسر اقتدارآگئے اور وہاں اسلامی نظام نافذ کر دیا اور آج ٹھیک دو دھائی بعد ایک بار پھر افغانستان میں طالبان بجلی کی سی تیزی سے فتوحات حاصل کرتے اقتدار کی منزل کے عین نزدیک پہنچ چکے ہیںجس پر پہنچتے ہی وہ ایک بار پھر افغانستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا اعلا ن کر دیں گے اور اس اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کی کسی میں ہمت دکھائی نہیں دے رہی ۔یہ با ت ہم وثوق سے اس لئے کہہ رہے ہیں کہ طالبان کے ترجمان سہیل شاھین کی تازہ ترین گفتگو ہمیں سننے کا موقع ملا ہے جس میں انہوں نے بظاہرتو ایک ایسا حل قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے کہ جو تمام سٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت سے طے کیا گیا ہو مگر بات کرتے کرتے وہ اس بات پر بھی بالا آخر آ ہی گئے کہ طالبان کا اصل ہدف افغانستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہی ہے جس کیلئے ہمارے لوگ بیرون ملک در بدر ہی نہیں ہوئے بلکہ لاکھوں بے گناہ انسانوں اور مجاہدین نے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے ۔طالبان کا اس موقف پر ڈٹے رہناہم بجا ہے ،وہ طاقت میں ہیں اور یہ طاقت انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے حاصل ہوئی ہے اور اگرافغانستان میں اسلامی نظام ایک بار پھر نافذ ہو جاتا ہے تو یہ کسی کے لئے ہو نہ ہو ہمارے لئے خوشی کی بات ہوگی کیونکہ سہیل شاھین نے اسلامی نظام کی بات کی ،شرعی نظام کی بات نہیں سنی ہم نے ان کی زباں سے، اور اگر اسلامی حکومت جسے انہوں نے اسلامی امارات کانام دے بھی رکھا ہے اگربن جاتی ہے تو اسے ہماری قبل ازوقت پیش گوئی سمجھا جائے ،دوسرایہ بھی کہ، پاکستان بھی تو ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں بین المذاہب ہم آہنگی کے تحت ہر مذہب وعقیدہ کے لوگوں کو مکمل آذادی حاصل ہے اور یقینا ایسا ہی افغانستان میں بھی ہوگا ،اب چاہے طالبان افغانستان میں اسلامی حکومت بنائیں یا لبرل یہ ان کی سوچ پر منحصر ہے ،مگر جہاں تک ہماری فکر کا تعلق ہے تو ہمیں تو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ افغان امن عمل جس کے کامیاب ہونے کے بعدہی حکومت سازی کا مرحلہ شروع ہوگا یہ امن عمل کامیاب ہو گا تو کیسے ہوگا ؟ خود موجودہ افغان حکمرانوں پر نظر ڈالی جائے تو دو اہم حکومتی ستونوں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں ٹکراؤ موجود ہے ،اشرف غنی ایک بات کرتے ہیں تو عبداللہ عبداللہ اسی بات کے متضاد موقف اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔اب اشرف غنی کی باگیں کس کے ہاتھ میں ہیں یہ سب کو معلوم ہے ، دوسری طرف بھارت کو دیکھاجائے تو طالبان کی منتیں ترلے کر تا تھکتا دکھائی نہیں دے رہا اسے بھی افغان معاملات میں امریکی عدم دلچپسی کے باعث افغانستان ہی نہیں خطے میں بھی اپنی چوہدراہٹ ختم ہوتی نظر آرہی ہے ۔دوسری جانب طالبان ہیں جو پے در پے فتوحات تو حاصل کر رہے ہیں مگر’’ مفاہمت‘‘ کے کسی نکتے پر وہ بھی تاحال نہیں پہنچ پائے ۔وہ چاہ رہے ہیں کہ مسئلہ با ت چیت اور’’ مفاہمت ‘‘سے حل ہوکیونکہ وہ بھی جنگ سے تنگ آچکے ہیں وہ بھی امن چاہتے ہیں ، واضع رہے کہ انہوں ہی نے دو ڈھائی برس پہلے ڈونلڈ ٹرمپ سے افغان جنگ کے کسی نتیجے پر پہنچنے اور اس کے حل نکالنے کیلئے ان کے بات چیت کی خواہش ظاہر کی تھی مگر ٹرمپ نے جان چھڑاتے ہوئے انہیں افغا ن حکومت ہی سے بات کرنے کا مشورہ دیا اور اب یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اب افغان جانیں اور افغانستان ۔تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب کون ہو سکتا ہیکہ جوافغان امن عمل کی بیل کو مفاہمت کے زریعے منڈھیر چڑھاسکتا ہے تو ایسے میں ہماری نظریں پاکستان پر ہی جا اٹکتی ہیں کیونکہ افغان معاملات کا براہ راست اثرہر لحاظ سے پاکستان پر پڑتا ہے اور پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام میں ناقابل فراموش قربانیاںدی ہیں ۔ افغانستان سے روس کا قبضہ چھڑانے میں اہم ترین کردار رہا ہے بلکہ افغان جنگ کے نتیجے میں اپنے ہزاروں فوجی جوانوں اور بے گناہ سویلینزکی جانوں کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہے او ر ایسے میں جب بات آتی ہے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی قربانیوں کی تو ا س سلسلے میں افغان جہاد کے ہیرو میجر (ر) محمد عامر کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے اسی لئے ہم میجر (ر) محمد عامر جنہیں ہم اُن کی ملک کی سلامتی و دفاع کے حوالے سے ناقابل فراموش خدمات کے اعتراف میں ریاست پاکستان کا’’ بیش قیمت عسکری اثاثہ‘‘ ہی نہیں عسکری مفاہمت کابادشاہ بھی سمجھتے ہیں ،کی یہاں ضرورت محسوس کر رہے ہیں کیونکہ افغانستان خصوصاً طالبان کی ضرورت بھی اس وقت مفاہمت کی ہی ہے لہذا ایک وہی ہیں جومفاہمت کی بیل کو بھی با آسانی منڈھیر چڑھا سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ وہ اپنی عسکری و زہنی صلاحیتوں اور موثر رابطوں کی وجہ سے طالبان میں ہی نہیں مقبول بلکہ افغانستان میں آباد پختون و فارسی وان سمیت تمام دیگر اقوام میں بھی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ وہ افغان جنگ کے حوالے سے فیلڈ میں سب سے آگے ہونے کی وجہ سے افغانستان کی سیاسی و عسکری سوجھ بوجھ زیادہ رکھتے ہیں تو دوسرا’’ جنگی معاملات کی اُلجھی گتھیاں سلجھانے میں بھی وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے‘‘ ، اسی لئے ہم وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ اگر ایک طرف افغان جہاد کی کامیابی اِن ہی کی مرھون منت ہے تو دوسری طرف مو جودہ افغان جنگ کا منطقی انجام بھی اِن ہی کا منتظر ہو شائد۔یہاں ہم یہ وضاحت  ضروری سمجھتے ہیں کہ میجر صاحب سے ہماری آج دن تک کوئی ملاقات نہیں ہوئی نہ ہی انہیں قریب سے دیکھنے کا کبھی موقع میسر آیا ۔بس اک خواہش تھی سامنے کر دی وطن سے محبت میں۔

ای پیپر دی نیشن