’’سہانا سفر اور یہ موسم حسیں۔۔۔‘‘

سہانا سفر اور یہ موسم حسیں/ہمیں ڈر ہے ہم کھو نہ جائیں کہیںسہانا سفر۔۔۔/یہ کون ہنستا ہے پھولوں میں چھپ کر/بہار بے چین ہے کس کی دھن پر/کہیں گم گم، کہیں رم جھم، کہ جیسے ناچے زمیںسہانا سفر۔۔۔یہ گوری ندیوں کا چلنا اچھل کرکہ جیسے الہڑ چلے پی سے مل کر پیارے پیارے یہ نظارے نکھرے ہیں ہر کہیں سہانا سفر۔ یہ وہ گانا ہے جو ہم زمانہ طالب علمی میں سکول، کالج یا کسی بھی ٹرپ پہ جاتے ہوئے گنگناتے تھے۔ یہ گانا دلیپ کمار پر عکسبند ہوا تھا، فلم کا نام تھا ’’مدھومتی‘‘۔۔ بارش کا سہانا موسم اور ٹپ ٹپ برستی بوندیں انتہائی حسین منظر پیش کرتی ہیں جو دل اور دماغ کو تازگی فراہم کرتا ہے لیکن بارش کے بعد جو مٹی کی خوشبو ہوتی ہے وہ مزید موسم کی خوبصورتی میں اضافہ کردیتی ہے۔ بارشوں کی ایک بوند پڑتے ہی سارا ماحول مٹی کی خوشبو سے مہک جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خوشبو سارے جہاں میں پھیل گئی ہو۔ کیا آپ جانتے ہیں مٹی کی یہ 
حسین خوشبو کیوں آتی ہے اور اس کو کیا کہا جاتا ہے؟ بارش کے موسم میں پھیلنے والی اس خوشبو کو’’ پیٹریکور‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو کہ ایکٹی نوموسیٹس نامی بیکٹیریا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔دوستو! بات بارش اور موسم برسات کی ہورہی تھی۔ بارش کے موسم میں لوگ طرح طرح کے کھانے پکاتے اور کھاتے ہیں، اگر بوندا باندی ہو تو لانگ ڈرائیو کا موڈ بن جاتا ہے اور دوستوں سے مل بیٹھ کر گپیں لگانے کا دل بھی کرتا ہے۔ اگر دوست احباب موجود نہیں بھی ہیں تو بارش کے موسم سے لطف اندوز ہونے سے کس نے روکا ہے۔ بارش برس رہی ہوچھت پر برآمدے میں یا بالکونی میں بیٹھ کر گرما گرم پکوڑوں کے ساتھ بھاپ اڑاتی چائے یا کافی کے بارے میں ذراسوچئے۔۔۔ اس پر برستی بارش کے حوالے سے ہی کوئی گیت آپ کے لیپ ٹاپ یا موبائل پربج رہا ہو تو کیا کہنے۔۔بارش اللہ کی عظیم نعمت ہے ہمیں اس نعمت کا شکر ادا کرناچاہیے لیکن بارش اتنی ہی اچھی جو کھیتوں کو سیراب کردے۔ضرورت سے زیادہ بارش سے نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔جب شدت کی گرمی پڑتی ہے تو ایسے میں لوگ بارش کی دعا کرتے ہیں۔بقول قتیل شفائی دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھااس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھابقول شاعرتمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے۔برصغیر میں ساون کا مہینہ جولائی کے وسط میں شروع ہوتا ہے اور مئی اور جون کی تپش اور گرمی سے راحت ِجاں کا وسیلہ بنتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ بارش کے برسنے سے چلچلاتی لو کا موسم ختم اور پانی کی بوند بوند کو ترسی زمین کے پیاسے لب سیراب ہوتے ہیں۔ کسان دھان کی فصلوں کی کاشت کے لیے اسی موسم کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب مینہ برسے گا اور وہ روزی روٹی کا سامان کرنے لگ جائیں گے۔ساون کی جھڑیاں جہاں دھوپ سے جھلسے درختوں، چرند، پرند کو نئی زندگی بخشیں وہیں جذبات بھی تازہ ہوتے ہیں اور ملن کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ جوش ملیح آبادی، ناصر کاظمی اور چراغ حسن حسرت جیسے شاعروں کی ساون پر شاعری آج بھی ادب کے دلدادہ لوگوں کی زبانوں پر ہے۔پاکستانی اور انڈین فلموں 
میں تو ساون کو رومانس، ہجر اور ملن کی خواہش کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ساون اور برسات کے موسم میں ملن کی چاہت بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے زمانہ قدیم سے ساون گیتوں اور شاعری کا حصہ ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ساون ہجر اور انتظار کا موسم ہے مون سون بہت ضروری ہے۔ نیز، پیداوار کی فصل کا زیادہ تر انحصار بارش کے معیار پر ہوتا ہے۔ بارش کا موسم زمینی سطح اور قدرتی وسائل کو برقرار رکھنے کے لئے اہم ہے۔ اسکے علاوہ، تمام جاندار اور غیر جاندار چیزوں کا براہ راست یا بالواسطہ قدرتی پانی پر انحصار ہوتا ہے اور بارش کے موسم اس پانی کو دوبارہ بھر دیتے ہیں تاکہ اگلے موسم تک یہ برقرار رہ سکے۔بقول امجد اسلام امجد۔۔بارش تھی، ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام تم نے لیا تھا کانپتے ہونٹوں سے میرا نام ،بارش کا یہ سہانا موسم، بادل کی گرج اور بجلی کی چمک ہندوستانی فلموں کا بھی پسندیدہ موضوع ہے۔ گو آج کی مشغول زندگی میں برسات کی اہمیت کم ہو گئی ہے پھر بھی قدرت کا یہ حسین تحفہ دل کو شادمانی اور آنکھوں کو سرور پہنچاتا ہے۔بارش تو سردیوں اور دسمبر کی بھی اتنی ہی خوبصورت ہوتی ہے جتنی ساون کی۔ اگر انسان کا من رومانوی ہو تو وہ کسی بھی موسم کو رومانس کا موسم بنا لیتا ہے کیوں کہ اصل موسم اندر کا ہوتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن