پاکستان پر سختیوں کی سب سے بڑی وجہ مسلم ملک ہونا ہے اس کے بعد دوسری بڑی وجہ ایٹمی صلاحیت کا ہونا ہے تیسری بڑی وجہ کہ ہمارے دفاعی ادارے اور عوام کو ملک سے بے پناہ محبت ہے۔ ملک کا ہر فوجی جوان پاک سر زمین کے چپے چپے کا دفاع کرنے کے لیے قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہے۔ ملک کا ہر شہری دفاع وطن پر جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو اسلام اور پاکستان دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو مختلف مسائل میں الجھایا جاتا ہے، پاکستان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ پاکستان نے ہر مشکل میں دنیا کا ساتھ ضرور دیا ہے لیکن اس کے باوجودِ متعصب دنیا پاکستان کو نشانے پر رکھتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان نے مقرر کردہ اہداف حاصل کیے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا جا رہا بلکہ پاکستان پر مزید سختیاں کرنے کے لیے ماحول بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اس سلسلے میں منفی کردار ادا کر رہا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان پر مزید سختی کی جائیں، بھارت اس کے لیے سازشیں بھی کر رہا ہے اور اپنا اثرورسوخ بھی استعمال کر رہا ہے۔
بھارت کے وزیر خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے لیے بھارت اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس اعتراف کے بعد نے ہندوستان اور ایف اے ٹی ایف دونوں کی غیر جانبداری بے نقاب ہو گئی ہے۔اس اعتراف کے بعد یہ تو ثابت ہوا کہ ایف اے ٹی ایف بھارتی اثر و رسوخ میں کام کرنے والا ایک سیاسی ڈھونگ ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے آخر کار اعتراف کیا ہے کہ بھارت پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے لئے ایف اے ٹی ایف پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اب ایف اے ٹی ایف کی ساکھ اور غیر جانبداری ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جی شنکر کا یہ اعتراف کہ ان کی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل رکھا جائے۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ کا یہ بیان پاکستان کے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے سیاسی استحصال کیا جارہا ہے اور اس پر ہندوستان کا اثر و رسوخ ہے۔ جے شنکر نے یہ سچ بی جے پی کے سیاسی کارکنوں کے اجتماع میں بولا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوتوا کی سیاست بین الاقوامی اداروں کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا بھارت کی طرف سے اعلانیہ اس اعتراف کے بعد ایف اے ٹی ایف اس تنازع سے باہر نکل سکتا ہے، کیا ایف اے ٹی ایف کو اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کے لیے اقدامات نہیں اٹھانے چاہییں۔ کیا ایسے بیانات کے بعد یہ ادارہ اپنی ساکھ برقرار رکھ پائے گا، کیا اس کے بعد ایف اے ٹی ایف کے فیصلوں کو انصاف پر مبنی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ثابت ہوا ہے کہ یف اے ٹی ایف متعصب مغربی دنیا کے آلہ کار کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کو اب بھارت کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہو گی۔ اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہو گا۔ ایف اے ٹی ایف کی ستائیس میں سے چھبیس نکات پر عمل کرنے کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھا گیا جو ادارے کی حقیقی روح کے خلاف ہے۔ یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان کو تقریبا تمام نکات پر عمل کرنے کے باوجود گرے لسٹ میں رکھا جائے۔ اب اس کی واحد وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہندوستان ایف اے ٹی ایف کو اپنے علاقائی سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ ہندوستان داعش کو ہتھیار فراہم کرتا ہے لیکن اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق ہندوستان دنیا بھر میں حوالہ کے ذریعہ خفیہ طور پر رقم منتقل کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ لیکن یہ ایف اے ٹی ایف اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ ہندوستانی ادارے اور افراد غیر قانونی اور مشکوک لین دین کے ذریعے 1.53 بلین ڈالر کی منی لانڈرنگ میں ملوث تھے اتنے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف کی جانبداری اور مخصوص ممالک کو رعایت اور مخصوص ممالک کے خلاف سختی کرنے کے فیصلوں کے خلاف کردار ادا کرنا ہو گا۔ دنیا بھارت سے ہونے والی منی لانڈرنگ پر خاموش رہتی ہے۔ کیا بھارت سے دہشت گردوں کی مالی سرپرستی اور معاونت سے انسانی جانوں کے ضیاع پر کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی۔ ان سارے واقعات کے بعد پاکستان میں ہونے والے حالیہ واقعات کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کی حمایت کی تو بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا، پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنا تو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ دنیا کو پر امن بنانے کے لیے ہم نے ستر ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا، ہماری ایک نسل خود کش بم دھماکوں کا نشانہ بنی، ایک نسل نے دہشت گردوں کے خوف میں زندگی بسر کی، ہم بیرونی دنیا سے کٹ کر رہ گئے۔ دنیا کو دہشت گردوں سے نجات دلاتے دلاتے ہم خود دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر آ گئے۔ کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں تنہا ہو کر رہ گئے، ملک میں نہ تو کھیلوں کی بین الاقوامی سرگرمیوں کا انعقاد ممکن ہو سکا نہ ہی ثقافتی سرگرمیوں میں تسلسل رہا، ہر طرح کے کاروبار کو ناقابلِ تلافی
نقصان پہنچا۔ یہ سب کچھ امریکی حمایت کے باوجود ہوا۔ ستم ظریفی ہے کہ اب ہم نے امریکہ کو انکار کیا ہے اس کے بعد بھی پاکستان کے امن کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کرتے ہوئے امن کے سفر میں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ پاکستان نے ماضی ہونے والے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے علاقائی سیاست میں غیر جانبدار رہنے کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے بہتر انداز میں اپنا موقف پیش کیا، پاکستان نے ایران اور سعودیہ کے مقابلے میں فریق بننے کے بجائے اپنے مفاد کو مد نظر رکھا، دیگر اہم علاقائی معاملات میں بھی پاکستان نے یہی پالیسی اختیار کی۔ یہی موقف پاکستان نے امریکہ کے ساتھ بھی اختیار کیا۔ حتیٰ کہ افغانستان کے معاملے میں بھی پاکستان خطے میں صرف پائیدار امن قائم کرنے کی پالیسی کے تحت آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو فریق بنانے کی کوشش کی گئی لیکن پاکستان نے انکار کر دیا۔ اس انکار کے بعد بھی پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دنوں پاکستان میں تعینات امریکہ کی ناظم الامور اینجلا ایگلر نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور اور افغانستان کی موجودہ سکیورٹی کی صورتحال اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر بات چیت کی گئی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان دو طرفہ تعلقات کی روایت میں تسلسل کو برقرار رکھنے اور امریکہ کے ساتھ دیرپا طویل المیعاد، کثیر الجہتی تعلقات کا خواہاں ہے۔ امریکی ناظم الامور اینجلا ایگلر نے علاقائی امن و استحکام کے لئے پاکستانی کاوشوں کو سراہا اور پاکستان کی افغان امن عمل کے لئے کاوشوں کو بھی قابل قدر قرار دیا۔ پاکستان غیر جانبداری کا موقف تو اپنا چکا ہے۔ بظاہر ملاقاتیں تو جاری رہیں گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ "نو مور" کے بعد مشکلات تو آ رہی ہیں۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت، افغانستان میں غیر نمائندہ اشرف غنی کی حکومت امریکی حمایت سے پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ یہ پاکستان کو انکار کی سزا دی جا رہی ہے۔ پہلے لاہور میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا، پھر داسو کا افسوس ناک واقعہ سے چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر کی بیٹی کا مبینہ اغوا یہ سب واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ان سب واقعات کا مقصد پاکستان کے امن کو تباہ کرنا ہے، پاکستان کی ساکھ کو خراب کرنا اور دنیا کو یہ بتانا کہ پاکستان میں کوئی محفوظ نہیں ہے، پاکستان کو چین کے ساتھ دوستی کی بھی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے کیونکہ سی پیک پاکستان کے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ دنیا یاد رکھے کہ پاکستان نے دو دہائیوں تک ہر طرح کی دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے، پاکستان کے دفاعی اداروں نے اپنی عوام کے ساتھ مل کر ملک دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ اس مرتبہ بھی پاکستان کے خلاف جو جال بچھایا جا رہا ہے پاکستان کے دفاعی ادارے اپنے غیور عوام کے ساتھ مل کر اسے ناکام بنائیں گے۔