میاں غفار احمد
17 جولائی کے ضمنی الیکشن کے نتائج اسٹیبلشمنٹ ، متحدہ حکومت ، اور تمام پارٹیوں کے اتحاد کو ایک واضح پیغام بن کر سامنے آئے ہیں۔ ایک اکلوتے شخص کے بیانیے نے سب کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔ اتوار کے روز جنوبی پنجاب کے جن انتخابی حلقوں سے میں نے معلومات لیں اور خود جاکر بھی دیکھا تو دن کے بارہ بجے ہی یہ اندازہ ہونا شروع گیا تھا کہ ایک اکیلے عمران خان نے سارے ’’پہلوان‘‘ ناک آؤٹ کردئیے ۔درجنوں خواتین کو یہ الفاظ کہتے سنا گیا کہ ہم سلمان نعیم کے احسانات کی مقروض ہیں مگر ووٹ بلے کا ہے ۔ یہ خطہ جسے جنوبی پنجاب کہا جاتا ہے یہاں کے سیاسی خانوادوں کو بہت زعم تھا کہ یہاں دھڑے بندی ، برادری ، جبے اور دستار کی سیاست ہوتی ہے تو چند ہی گھنٹوں میں نہ تو دستاریں سر پر رہیں ، نہ کہیں جبے نظر آئے ، نہ پھونکیں چلیں ، اور نہ ہی برادریوں کا دباؤکام آیا ، نہ جھوٹے مقدمات کچھ بگاڑ سکے ، نہ انتظامیہ اور پولیس کی دھونس چل سکی ، چلا تو صرف بلا چلا۔ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی نے جو دو نشستیں ہاری ہیں وہ بھی محض اس وجہ سے کہ ایک امیدوار کی ذاتی شہرت کمزور تھی اور دوسرے امیدوارکی حلقے میں عدم موجودگی لوگوں کو کھٹکتی تھی۔
پی پی 217 سے سلمان نعیم کو از خود مسلم لیگ نے ہرایا ہے کیونکہ نہ رانا برادری چاہتی تھی کہ یہاں شیخ سلمان نعیم کا حلقہ پکا ہوسکے، نہ ہی اس حلقے کی آرائیں برادری نے سلمان نعیم کودل سے قبول کیا ۔ رانا برادری نے مسلم لیگ کے ساتھ وہی ہاتھ کیا جو انہوں نے سینٹ کے الیکشن میں نواز شریف کے جان نثار’’ سکیورٹی گارڈ ‘‘زبیر گل کو ہرا کر کیا تھا کہ رانا برادری کسی طور پر بھی یہ حلقہ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی جو سلمان نعیم کی کامیابی کی صورت میں یقینی طور پر ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا۔اس حلقے میں سلمان نعیم کے ساتھ اگر کوئی اخلاص کے ساتھ چلا تو صرف سید یوسف رضا گیلانی اور ان کا گروپ تھا باقی سب نے منافقت کی۔ اس کے باوجود وہ 2018 ء کے الیکشن کے مقابلے میں کچھ بہتر ووٹ حاصل کرسکے ۔ میں نے خود سنا کہ سلمان نعیم کی گاڑیوں میں بیٹھ کر آنے والی خواتین نے بلے کو ووٹ دیا ، ان کی د عائیں سلمان کے ساتھ لیکن مہریں بلے کے لئے تھیں اور حیران کن طور پر یہ دیکھا گیا کہ کسی زمانے میں صبح صبح کبھی مرد حضرات ووٹ ڈالنے آتے تھے خواتین بعد میں آیا کرتی تھیں ۔ مگر اس بار خواتین کثیر تعداد میں علی الصبح پولنگ اسٹیشن پر موجود تھی تو مجھے اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ الیکشن کا نتیجہ کیا ہوگا اور یہی جذبہ عمران خان کی جیت کا سبب بنا۔
لودھراں سے کیپٹن (ر) عزت جاوید محض ا س وجہ سے ہارے کہ ان کا اصل ٹھکانہ تو اسلام آباد میں ہے یہاں وہ محض ’’منہ دکھائی ‘‘کیلئے آتے ہیں ۔ وہ انتہائی شریف اور معزز آدمی ہیں لیکن کچھ ایسے لوگ اسلام آباد سے ان کیلئے انتخابی مہم میں اپنا حصہ ڈالنے آئے جنہوں نے حصہ تو کیا ڈالنا تھا الٹا ان کے الیکشن پر منفی اثر ڈال کر چلتے بنے ۔ اور کیپٹن (ر) عزت جاوید جن کی عزت ان کی شرافت کی وجہ سے تھی اس پر سوالیہ نشان لگا کراور ووٹر کے ذہن کو الجھاتے ہوئے چلتے بنے کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے لہذا شرافت کا ووٹ چند ہی دنوں میں کیپٹن (ر) عزت جاوید کے ہاتھ سے نکل کر آزاد امیدوار پیر رفیع الدین شاہ کی جھولی میں آگرا جن کا خاندان علاقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ تاہم لوگوں نے یہ ووٹ نون لیگ کے امیدوار کو بھی نہیں دیا ۔ یہ بات کئی دنوں سے گردش میں تھی کہ عبد الرحمن کانجو مسلم لیگی امیدوار کی بجائے پیر رفیع الدین شاہ کیلئے اپنے دل میں بہت احترام رکھتے ہیں۔ایک بات طے ہے کہ پیر رفیع الدین شاہ کا آزاد ووٹ بھی پی ٹی آئی کی جھولی میں جائے گا لہذا ان ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی سیٹیں ابھی سے 20 میں سے 16ہوچکی ہیں ۔
مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی سے باسط سلطان بخاری جنہوں نے سینکڑوں افراد کی موجودگی میں اعلان کیا تھا کہ وہ سید ہیں ان پر دوزخ کی آگ حرام ہے اور ان کا ٹھکانہ ہر صورت میں جنت ہے ، اسی زعم میں موصوف گزشتہ سالہا سال سے اپنے حلقے کے عوام کیلئے دوزخ کا سا سامان پیدا کیے ہوئے تھے۔ ہر ظالم اور سماج دشمن ان کے حلقۂ تصرف میں رہتا تھا ۔جتوئی میں ان کے خلاف زبان کھولنا بھی ’’ قابل دست اندازی پولیس ‘‘جرم ہوتا تھا۔حتی کہ وہ آج سے چند سال پہلے اپنی انتخابی مہم بھی نہیں چلایا کرتے تھے، بس ناشتوں ، ظہرانوں عشائیوں و چائے کا دور چلتا اور انتخاب جیت لیا جاتا تھا۔اس مرتبہ وہ اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت انتخابی مہم میں در بدر ہوئے اور پھر بھی الیکشن سے بھی آؤٹ ہوگئے ۔ورنہ کبھی یہ صورتحال تھی کہ پانچ سال باسط سلطان کی ہمشیرہ محترمہ تحصیل ناظم بلدیہ جتوئی رہیں اور شاید پانچ سال میں پانچ مرتبہ بھی دفتر حاضر نہ ہوئیں البتہ ساری تحصیل کا نظام ان کی ایک ٹیلی فون کال پر چلتا تھا اور تب انہوں نے ایک ہی شخص کو سات مختلف سرکاری عہدوں کے اضافی چارج دیکر صرف 18 ہی نہیں بلکہ ’’گریڈ 118 ‘‘ کا افسر بنا رکھا تھا۔
علی پور کے حلقے سے پی ٹی آئی نے انتہائی کمزور امیدوار میدان میں اُتارا کیونکہ نہ تو رسول بخش جتوئی کے کریڈٹ پر کوئی فلاحی کام ہے اور نہ ہی یاسر عرفات کے ، جبکہ یہ دونوں حضرات پہلے بھی رکن اسمبلی رہ چکے ہیں ، ان کا مقابلہسید سبطین رضا کے ساتھ تھا جو کہ سردار عاشق گوپانگ کے پینل سے آزاد جیت کر آئے ، پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور بعد میں لوٹے بن گئے ۔ پی ٹی آئی کے پاس علی پور میں تین نام ایسے تھے جو اچھے ورکر اور اچھی شہرت کے حامل تھے مگر انہیں نجانے کس کے کہنے پر ٹکٹ نہ ملا، حتی کہ یاسر عرفات کا نام انتہائی قابل اعتراض تھا ، ڈیرہ غازی خان سے سردار سیف الدین کھوسہ اچھے مارجن سے جیتے ہیں حالانکہ ان کا مقابلہ عبد القادر کھوسہ سے تھا جو اپنے بھائی اور والد کیوجہ سے انتہائی مضبوط امیدوار تھے اور عوامی، فلاحی کاموں کے حوالے سے ان کا ڈیرہ ہر وقت آباد رہتا تھا۔
سالہا سال پنجاب پرحکومت کرنے والے خاندان کی قائد محترمہ مریم نواز شریف 1982ء میں ضلع بننے والے لیہ کو جیتنے کی صورت میں 40 سال بعد دوبارہ تحصیل بنانے کا اعلان کر گئیں ، ان کا ایک جملہ ہی نون لیگ کی شکست کیلئے کافی ثابت ہوا گویا وہ اپنی دانست میں’’ جزو کو ک‘ل‘‘ قرار دے گئیں۔ اور لیہ میں ان کے جملے کی گونج ایسی گونجی کہ لوگ اس بات پر قائل ہوگئے کہ جب ہمارے حکمرانوں کو ہمارے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں تو پھر ان کی جیت کیوں؟ اور اس طرح مسلم لیگی امیدوار طاہر رندھاوا جن کی انتخابی مہم پی ڈی ایم ،مذہبی جماعتیں ، اور پیر خانے مل کر چلارہے تھے ، پی ٹی آئی کے امیدوار قیصر عباس مگسی سے شکست کھاگئے ۔
کسووال ضلع ساہیوال میں پی ٹی آئی سے ہر طرح کا مفاد اٹھاکر لوٹا بننے والے ملک نعمان لنگڑیال نے نہ صرف خود بلکہ اپنے خاندان کے افراد کو بھی حکومتی عہدے دے کر ان کے مالی حالات اچھے خاصے سنوار دئیے تھے ۔ پی ٹی آئی سے خوب سیر ہوکر وہ لوٹا بنے اور اپنے والدملک اقبال لنگڑیال کی سالہا سال کی محنت سے کمائی گئی سیٹ گنوا بیٹھے ۔بہاولنگر کے حلقہ منچن آباد سے پی ٹی آئی کے ورکرز انتخابی عمل کی نگرانی نہ کرسکے اور وہاں سے پی ٹی آئی کا زور توڑنے کیلئے تحریک لبیک کے امیدوار کو بھی پنجاب حکومت کی در پردہ انتظامی سپورٹ حاصل تھی ۔ اوپر سے وہاں انتظامیہ اورسرکاری مشینری کا جادو بھی چلا جو پنجاب میں کہیں نہ چل سکا تھا ، وہاں سے تحریک لبیک کا امیدوار 21 ہزار ووٹ لے گیا جبکہ پی ٹی آئی چھوڑ کر نون لیگ میں شامل ہوکر لوٹا بننے والے فدا حسین وٹو دوبارہ جیت گئے۔اس لحاظ سے جنوبی پنجاب سے
دو لوٹے پی ٹی آئی کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے اسمبلی میں پہنچ گئے۔ تاہم اس تمام انتخابی عمل میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ قوم اپنا ذہن بنا چکی ہے جسے اب تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔اب پیروں کو بھی انتخابی مہم کیلئے گاڑیوں کے تحفے نہیں ملا کریں گے قوم کی جانب سے یہ واضح پیغام اس ملک کو ہر طریقے سے اپنے زیر تسلط رکھنے والی اشرافیہ تک پہنچ چکا ہے ۔