گذشتہ کئی برسوں سے ملک میں جمہوریت جمہوریت اور جمہوریت ہی نظر آتی ہے۔ اقتدار کی خواہش رکھنے والوں کو برسوں سے اقتدار کے ایوانوں میں آنے جانے کا موقع مل رہا ہے۔ انتخابات بھی ہوتے رہتے ہیں یوں ووٹرز کو بھی مفت کے کھانوں کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ان دنوں بھی جمہوریت کے فضائل بتانے کا موسم ہے۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں کہیں نہ کہیں حکومت میں ضرور نظر آتی ہیں۔ سب کا دعویٰ ہے کہ ملکی مسائل حل کرنے کا فارمولا صرف ان کے پاس ہے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ مسائل پیدا کس کی وجہ سے ہوئے ہیں حالانکہ مسائل کی وجہ بھی سیاست دانوں کی بدانتظامی ہے۔ سیاسی حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے آج ہم قرضوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، کوئی تحقیق کا کام نہیں ہوتا۔ کوئی تعمیری کام نہیں ہوتا، کوئی زندگی سے محبت کا راستہ دکھائی نہیں دیتا، کہیں قانون کی عملداری نہیں ہے، کہیں آئین کی پاسداری نہیں ہے، کہیں قانون و انصاف نظر نہیں آتا، کہیں میرٹ نہیں، اہل لائن میں لگے رہتے ہیں اور سفارشیوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ ہر طرف لوٹ مار ہے، ہر طرف تنزلی ہے کوئی شعبہ ترقی کی طرف گامزن نہیں۔ پہلے بھی ہلکا پھلکا حالات خراب تھے لیکن گذشتہ دو دہائیوں میں اس تیزی سے حالات بدلے اور مسائل میں اضافہ ہوا ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ مسائل کی فہرست بنانے بیٹھیں تو کمر ٹوٹ جائے گی لیکن فہرست تیار نہیں ہو سکے گی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مسائل پیدا کرنے والے ہی ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور انہیں حل کرنے کے دعوے بھی کر رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنہیں موقع ملا اور انہوں نے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے کام کیا، کتنے ایسے ہیں جنہیں موقع ہی نہ ملا ہو، شاید کوئی بدقسمت ہی ہو گا ورنہ جس رفتار سے حکومتوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کوئی فیض یاب نہ ہوا ہو۔ چونکہ مسائل سب کے اپنے پیدا کردہ ہیں شاید اسی لیے سب انہیں حل کرنے کے دعوے بھی کرتے رہتے ہیں۔ مسائل حل بھلے نہ ہوں لیکن عوام میں ضرور گھل مل گئے ہیں۔ ہر مرتبہ معصوم لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ووٹ لیتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ یہ سیاست دانوں کا عمومی رویہ ہے۔
ان دنوں بھی آپکو بڑے بڑے بیانات سننے کو ملتے ہوں گے۔ بدقسمتی ہے کہ بیانات سے نہ تو بھوک ختم ہوتی ہے نہ پیاس بجھتی ہے، نہ بچوں کے سکول کی فیس ادا ہوتی ہے نہ پانی بجلی گیس کے بل جمع ہوتے ہیں لیکن پھر بھی تمام معصوم لوگ ان پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا سب کچھ لٹانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی عدم استحکام پیدا ہو چکا ہے اور ہر روز ہمیں آئی ایم ایف کی طرف سے ایک نیا ہدایت نامہ جاری ہوتا ہے اور سب اس ہدایت نامے کو حل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ میں لگے نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان دنوں بھی ہر وقت آئی ایم ایف کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ پہلے ملک کے دیوالیہ ہونے کا بیانیہ سامنے آیا پھر آئی ایم ایف معاملات طے ہونے کی خوشبری سنائی گئی کیکن تاحال کوئی کامیابی نہیں ملی بلکہ مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے سننے کو مل رہا ہے کہ پاکستان نے اصلاحی ایجنڈے کو نافذ نہیں کیا تو بورڈ اجلاس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو ایگزیکٹیو بورڈ اجلاس سے قبل تمام ترجیحی نکات پر عمل کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ میں کوئی ملک اثرانداز نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف پاکستان میں توانائی کی قیمتوں کے حوالے سے واضح پالیسی چاہتا ہے۔گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے طے کئے گئے معاہدے پر عمل نہیں کیا۔نگران حکومت آئی تو اس سے بات چیت پر کوئی قدغن نہیں ہے۔پاکستانی قوانین میں نگران حکومت آئی ایم ایف معاہدہ پر دستخط نہیں کرسکتی۔پاکستان میں نادار طبقہ کو دیئے گئے ریلیف پر آئی ایم ایف کو کوئی اعتراض نہیں۔ یہ واضح ہے کہ مسائل کی وجہ کون ہے۔ یہ صورتحال نہایت افسوس ناک ہے۔ لگ بھگ بائیس تیئیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور اس کے حکمران ایسے ہیں کہ عالمی اداروں سے قرض کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتے۔ یہ ملک ایٹمی طاقت بھی ہے اور قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے، یہ ملک کئی دہائیوں تک مختلف جنگوں کا بھی شکار رہا، یہ ملک دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں عالمی طاقتوں کا فرنٹ لائن اتحادی بھی رہا، ایٹمی صلاحیت رکھنے کے بعد یہ ملک معاشی طاقت نہ بن سکا، دنیا کو پرامن بنانے کی جنگ لڑتے لڑتے بدامنی کا شکار ہونے والے اس ملک میں آج امن و امان کے حالات مثالی ہیں لیکن امن و امان کے بہتر حالات سے فائدہ اٹھانے والا کوئی نہیں۔ بالکل ویسے جیسے ایٹمی طاقت بننے کے بعد ہم نے معاشی قوت بننے کا موقع ضائع کیا ویسے ہی بدامنی سے نکل کر امن میں زندگی تو گذار رہے ہیں لیکن اس پرسکون ماحول سے فائدہ اٹھانے کے بجائے مسلسل وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وقت کا ضیاع کرنے والوں میں آپ اور میں نہیں بلکہ ہمارے حکمران ہیں۔ آج بھی سب کے بیانات دیکھ لیں، سن لیں کہیں سے آپکو لگتا ہے کہ کوئی ملکی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے سب کو اپنی باری کی فکر ہے کوئی قومی سوچ کے ساتھ قوم کے درد کو محسوس کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ سب مسائل پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، مشکلات سے نکالنے کے لیے دائیں بائیں ادھر اْدھر دیکھتے ہیں، کیا یہ ممکن ہے۔ ہمارے مسائل ہیں خود ہی حل کرنا پڑیں گے۔ باہر سے کوئی نہیں آئے گا کاش یہ سمجھ جائیں اور کاش کہ یہ سب بدل جائیں۔ یہی حقیقی تبدیلی اور ملک و قوم کی خدمت ہو گی۔