عمران خان کیلئے درکار سیاسی بصیرت و بصارت

Jul 19, 2022

جب ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن نے الیکشن لڑے تو کہا گیا کہ روس نے ٹرمپ کے حق میں الیکشن میں مداخلت کی ہے۔کیا اوبامہ کو چاہئے تھا کہ وہ ٹرمپ کو اقتدار سونپنے سے انکارکر دیتا؟ صدر بائیڈن روسیوں  سے کھلے عام اپیل کر رہا ہے کہ وہ ’’ قصاب‘‘ پیوٹن کو ہٹا دیں۔ کیا یہ بات پیوٹن کو تازیست اقتدار سے چمٹے رہنے کی اجازت دیتی ہے؟ بالغر امریکہ سازش کر رہا ہے تو خان صاحب کو اپنی ’’منجی تھلے ڈانگ‘‘ پھیرنے  کی ضرورت تھی۔ آپ نے اپنی پارٹی کے ارکان کو نارض کیوں کیا۔ اتحادیوں کو (Good humour)  میں  کیوں نہ رکھا جہانگیر ترین گروپ کئی ماہ سے الگ ہو چکا تھا۔ ہم نے اپنے کالم میں لکھا یہ اپنی تذلیل کبھی نہیں کرے گا۔ علیم خان آپ کی ایما پر جیل گیا۔ وہ ایام اسیری کو کیسے بھول سکتا ہے کیا یہ سب کچھ امریکہ نے کرایا ہے۔؟ آپ نے الزام لگایا ہے کہ تحریک انصاف کے بیس یا کچھ زیادہ ارکان نے بیس کروڑ روپے رشوت لی ہے۔ ان میں سے کچھ نے تو کتاب مقدس پر حلف اٹھایا ہے کہ انہوں نے ایک ٹکہ بھی نہیں لیا۔ آپ خود بتائیں کہ کس کی بات مانی جائے؟ کیا آپ نے انکو رشوت لیتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ ان کی گفتگو سنی ہے؟ اگر مدینے کی ریاست ہوتی تو قذف کے زمرے میں یہ الزام آتے۔ بحث کی خاطر سہی۔ اگر یہ الزامات درست ہیں تو پھر اس قسم کی جمہوریت کا کیا فائدہ ہے؟ اس کی بساط لپیٹ دینی چاہئے۔ اگر ایسا ہو جائے تو آپ وہ طریقہ بتا دیں جس سے آپ وزیراعظم بن سکتے ہیں؟
 تضادات کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ الزامات سوچ سمجھ کر لگانے چاہئیں۔ پچھلی بار 35  پنکچروں کا  8i,g wdehگیا۔  اردو بازار میں بیلٹ پیپرزکے چھپنے کے چرچے کئے گئے۔ جب جوڈیشل کمیشن نے ثبوت مانگا تو سب کا ’’ہاسا‘‘  نکل گیا۔ ’’ زید نے بکر  کر کہا ۔ بکرنے مرتضیٰ پویا سے سنا وغیر۔ آپ نے دعوی کیا کہ میاں شہباز شریف نے آپ کو سیاست سے کنارہ کشی  کیلئے دس ارب روپے کی پیشکش کی۔ تمام قوم دریائے حیرت میں ڈوب گئی۔ جو شخص کسی کو چائے کی پیالی تک نہیں پلاتا اس نے اتنی خطیر رقم کیسے آفر کر دی؟ اب جب ہتک عزت کا دعویٰ ہوا ہے تو تین سال سے جواب دعویٰ  بھی جمع نہیں کرایا۔14 اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں کوئی فرشتہ نہیں ہے۔کسی کا دامن بھی صاف  نہیں ہے۔ الزامات کی اگر فہرست مرتب کی جائے تو آپ سے اوپر آپ کے مخالفین کا نام آتا ہے۔ شکیپیئر نے کہا تھا جس کسی کا جہاں بھی داؤ لگ جائے وہ چوکتا نہیں ہے۔  بدقسمتی سے ہم عصر حاضر کے کوٹھے میں رہ رہے ہیں۔ ایوب خان اپنی کتاب Friends not masters     میں لکھتا ہے۔ ’’ میں نے اپنے ایک دوست جج سے پوچھا  ’’تمہارا دن کیسے گزرتا ہے بولا Ikeep on Listening Lies Rightfrom Morning till Evening, My only Job is to Seperate میں گندم کو بھوسے الگا کرتا ہوں۔ Grain from the chaff  کسی زمانے میں بیان نزع کو  قانون شہادت میں بڑی اہمیت حاصل تھیآج کل عدالتیں اسے ماننے سے اکثر گریزکرتی ہیں۔ متوفی رشتہ داروں کو انگیخت پر‘ یا انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر قاتل کے سارے خاندان کو  نامزد کر جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کا شمار ملک کے خوش قسمت ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس کو Larger  than life image  ملا ہے۔ کرکٹ کھیلا تو بڑا نام کمایا۔ قسمت ترین لوگوں ہی  ہوتا ہے۔ اس نے  بے شمار پاکستانیوں کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ سیاست میں آیا تو اپنی تمام تر کمزوریوں کے اور ناتجربہ کاری کے باوجود وزیراعظم بن گیا۔ اب جب ایوان اقتدار سے نکلا ہے تو وقتی ہزیمت کے باوجود اس کے قدم آگے بڑھتے نظر تے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم سررابرٹ پیل نے کہا تھا کہ  رائے عامہ ہر گھڑی ہر لحظہ بدلتی رہتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ  مہنگائی اور بے روز گاری کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر عمران خان کو بددعائیں دے رہے تھے۔ وہ اب اس کی ایک جھلک  اس کے شبد سننے  کیلئے  بے تاب رہتے ہیں۔ عمران خان نے وہی حکمت عملی اپنائی ہے جو بھٹو کی کامیابی کی کنجی بنی۔ بقول جنرل  موسیٰ خان ایوب خان کو جنگ کیلئے بھٹو نے اکسایا۔ جب مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے اور تاشقند میں خان کا ناریل چٹخ گیا اور اس نے بھٹو کو برا بھلا کہا تو بھٹو نے اپنی تاریخی غلطی کو خان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا۔ جس بلی کو بھٹو نے تھیلے سے باہر نکالنے کا عندیہ دیا وہ کبھی باہر نہ نکلی لیکن نتیجتاً ایوب ایوان صدر سے باہر نکل گیا۔  قطع نظر اس بات کے کہ خان کا بیانہ درست ہے یا سراسر غلط عوام میں اس کو بڑی پذیرائی مل رہی  جس کا ثبوت ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔ ہجوم دن بدن بڑھ رہا ہے۔ لوگ جوک  درجوک باہر نکل رہے ہیں۔ کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ عمران نے کشتیاں جلا دی ہیں۔ وہ اقتدار میں آتا ہے یا نہیں اس کی اول خواہش یہ ہے کہ موجودہ حکمران فارغ ہو جائیں!
 عمران کا مطالبہ ہے کہ الیکشن فی الفور کرائے جائیں۔ جلد یا بدیر ہو بھی جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اگر معروضی  حالات کو دیکھا جائے تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ پہلے تو طریقہ کار پر اختلاف ہوگا۔ EVM  اور اوورسیز پاکستانیوں پر متفق ہونا کار دار ہوگا۔ بالغر متنازعہ امور طے پا جاتے ہیں۔ تب بھی ہار کی صورت میں خان نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔  اگر جیت جاتا ہے تو حکومت کیسے چلائے گا؟ معیشت کی زبوں حالی کا کیا   اپائے ہوگا۔ کہتے ہیں ہاتھیوں کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ مغربی طاقتیں اپنی تضحیک اور تذلیل کو کبھی بھی نہیں بھولیں گی۔ پاکستان کو سزا دینے اور اس کی معیشت کو سرنگوں کرنے کے ان کے پاس کئی نسخے ہیں۔ IMF- F.A.T.F  ورلڈ بنک G. sp,plus لاکھوں کی تعداد میں محنت مزدوری کرنے والا پاکستانی DIASPORA ۔ کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ خان صاحب یوٹرن کے ماہر ہیں۔ یہ لفظی خشت باری  بند کر دینگے۔ مغرب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔ وہ صفحہ جو پھٹ چکا ہے اس پر تازہ تحریر لکھیں گے۔ ان سب باتوں کیلئے جو سیاسی بصارت اور بصیرت درکار ہے۔ وہ فی الحال خان صاحب کے خزانے میں نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کو امید ہے کہ اس قسم کا Momentum  زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ لوگ تھک جائیں گے۔ جس طرح دھرنوں میں ہجوم کم ہوتا گیا تھا‘ اسی طرح جلسے جلوس بھی گھٹتے جائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر کیا ہوگا؟  انگریزی زبان کے شاعر کالرج کے الفاظ میں  یہی کہا جا سکتا ہے۔
. A thing to dream and not to Tell  

مزیدخبریں