صوبہ سندھ لسانی فسادات کی لپیٹ میں

Jul 19, 2022

تعصب، نفرت اور لسانیت ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتا جا رہا ہے ، کچھ لوگ متعصبانہ سیاست اور کچھ لسانی بنیادوں پر سیاست چمکا رہے ہیں ، ہمارے قومی اداروں کی اس زمرے میں کاوشیں ناکافی ہیں ،صوبہ سندھ کے قدیم تاریخی شہر حیداآباد میں ہونے والا واقعہ قومی یکجہتی میں دراڑ ڈالنے کی ایک مذموم سازش ہے جس پر ملک کی مرکزی اور صوبائی سیاسی قیادت خاموش تماشائی بنی رہی۔ 
 حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں 12 ، جولائی کی شب ہوٹل انتظامیہ اور چند نوجوانوں میں کھانا کھانے کے دوران تصادم ہوا ، جس کے نتیجے میں کئی مقدمات میں مطلوب بلال کاکا ہلاک ہو گیا ، پولیس کے مطابق بلال کاکا مختلف 12 مقدمات میں مطلوب تھا ، جن میں انسداد دہشت گردی کے الزام کے علاوہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور ارادہ قتل کے الزامات بھی شامل ہیں یہ مقدمات حیدرآباد اور اس کے مضافاتی علاقوں ٹنڈوو جام اور مٹیاری میں دائر ہیں ، بلال کاکا کے ماضی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ ڈاکے مارنے اور لوگوں کو یرغمال بنانے میں ملوث رہا ہے ، کریمنل نمبر 224765 رکھنے والا بلال کاکا پولیس رپورٹ کے مطابق 2014 ء میں ضلع حیدرآباد کے پولیس اسٹیشن ٹنڈوجام میں درج ایف آئی آر نمبر 164پیر کے دن جنوری میں گرفتارکیا گیا تھا ،2017 ء میں ایف آئی آر 59 کے تحت گرفتار ہوا ، پھر 2018 ء میں ایف آئی آر 259 نسیم نگر ضلع حیدرآباد میں اس کی گرفتاری عمل میں آئی جئے سندھ جماعت کے عہدیداروں نے اس گرفتاری پر عوامی رابطے کی ویب سائیٹ پر سندھی زبان میں بیان جاری کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ ہتھیاروں کے زور پر حیدرآباد کے شریف شہریوں کو یرغمال بنانے والا اور کئی کیسوں میں مطلوب روپوش بدمعاش ِ زمانہ بلال کا کا نسیم نگر کی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ‘‘ ہتھکڑی لگے بلال کاکا کی تصویر دائیں طر ف بائیں طرف کلاشنکوف اور پستولوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بلال کا کی تصویراور نیچے کی تصویر میں بلال کاکا اسلحہ کیساتھ اپنے ساتھی کے ہمراہ دیکھا جاسکتا ہے ۔ 
کریمنل ریکارڈ کے مالک بلال کاکا کی پشتو زبان بولنے والے ریسٹورنٹ کے مالک کے ہاتھوں ہلاکت کو لسانی رنگ دے کر سارے حیدرآباد میں پختونوں کے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا انہیں ڈرایا دھمکایا گیا ،یہ سلسلہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا جس کی وجہ سے قومیتوں میں غم وغصہ پیدا ہوا ، بلال کاکا سندھی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ میں شامل رہے ، حالیہ لسانی فسادات کی وجہ لسانی جماعت سے وابستگی بنی اور ایک ڈاکو کو نسلی بنیاد پر ہیرو بنا دیا گیا لہذاجئے سندھ قومی محاذ کے رہنما ڈاکٹر نیاز کالانی کی قیادت میں بلال کاکا کی لاش کے ساتھ قاسم آباد میں دھرنا دیا ان کا مطالبہ تھا کہ مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کر کے تمام ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے ۔
 قوم پرست جماعتوں نے ہوٹل مالکان کو افغانی قرار دیا ، لہذاڈاکٹرنیازکالانی نے سندھ بھر میں گو افغانی گو مہم چلانے کا اعلان کر دیاجس کے بعد سندھ کے کئی شہروں میں احتجاج شروع ہوئے ، حیدر آباد، شکارپور، سکھر، نوابشاہ ،سہون شریف ، ٹنڈومحمد خان ، میھڑ سمیت کئی شہروں اور قصبوں میں قوم پرست جماعتوں جئے سندھ قومی محاذ ، جئے سندھ محاذ، سندھ یو نائیٹڈ پارٹی کی جانب سے احتجاجی ریلیاں نکالیں گئیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ افغان باشندوں کو سندھ سے بے دخل کیا جائے ، مشتعل افراد نے کراچی سہراب گوٹھ الآصف اسکوائر کے قریب نجی املاک کو نقصان پہنچایا ، گاڑیاں جلا ئیں ،اس ہنگامہ آرائی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 40  افراد کو گرفتار کیا ، سوشل میڈیا پر مشتعل افراد کی افسوس ناک مناظر پر مشتمل ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں ، جن میں یہ افراد کہیں گاڑی روک کر لوگوں کو دھمکا رہے ہیں تو کہیں ہوٹل اور دوکانیں بند کروا رہے ہیں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں نسلی اور سیاسی تنائو میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیاواقعہ کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ نسل پرستانہ بیانیہ مسترد کرنا انتظامیہ اور تمام ترقی پسند آوازوں کی ذمہ داری ہے ۔
 ضیاء دور میں قومی کونسل برائے شہری آزادی کے نفیس صدیقی نے کراچی ڈینسا ھال میں ایک سیمینار منعقد کیا تھا ، جس میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر، رشید اے رضوی، شفیع محمدی،علامہ عقیل ترابی ، محمود قصوری اور کئی جید علماء نے شرکت کی تھی ، ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی کی وجہ سے اس غیر سیاسی پلیٹ فارم سے شیعہ سنی فسادات کے پس منظر اور اس کے عوامل پر غور کیا گیا۔ کراچی میںدنیا کے کئی ممالک کے باشندے رہائش پذیر ہیںاور ان ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان باشندوں کو تخریبی کاروائیوں میں استعمال کرتی ہیں ،بلال کاکا کے قتل کے بعد کے حالات بیرونی سازش کا ایک مذموم حصہ معلوم ہوتے ہیں ، جن کو جذباتی اور لسانی رنگ دے کر نفرتیں پھیلانے کی کوشش کی گئی ۔ 
احتجاج جمہوری حق ضرور ہے لیکن اسے نفرت کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے ، اس طرح جذبات میں آ کر لسانیت کا پرچار کسی بڑے سانحے کو جنم دے سکتا ہے یہ ملک ہم سب کا ہے ملک دشمن ہر لمحہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ فرقوں میں بٹی اس قوم کے درمیان نفرتیں اور دشمنیاں پیدا کی جائیں اور ملک پاکستان کو کمزور کیا جائے، جاگ پاکستانی جاگ۔ 

مزیدخبریں