شازیہ عالم شازی کا شعری مجموعہ ‘‘ سمندر راز داں میرا’’ موصول ہوا۔ اسے دیکھتے ہی علامہ اقبال کا شعر وردِزباں ہوا
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں
لیکن جب شازیہ کی کتاب پڑھی تو احساس ہوا کہ اْن کا جو رازداں تھا وہ اب نہ راز داں رہا نہ حرزِ جاں رہا۔ اب اْن کا ہمدم و مْونس سمندر ہے جس کے ساحل سے وہ تلاطْم خیز موجوں کا نظّارہ کرتی ہیں اور بقولِ شاعر
اے کاش تْم بھی ساتھ مرے ڈوبتے یہاں
ساحل پہ رہ کے دوست صدائیں نہ دو مجھے
شازیہ کی شاعری کا محور’’ محبت ‘‘ ہے۔وہ محبت کی شاعرہ ہیں۔ زخمِ دل تازہ اور غم کا آوازہ ہے۔ اِن کی غزل اساتذہ کے روایتی رنگ و آہنگ کی پاسدار، جذبات و احساسات کی آئینہ دار اور مشرقی مہر و وفا کا حصار ہے۔ رنگِ تغّزل سادہ و سلیس ہے۔ سہلِ ممتنع اْن کی شاعری کی پہچان ہے۔ عشقیہ واردات کی داستان، غمِ ہجر کا بیان، شدّتِ کرب کی ترجمان اور مترنّم طرزِ بیان۔ اِن کی شاعری میں محبت کی کسک بھی ہے اور زخمِ غْنچہ دل کی مہک اور برقِ وجداں کے چمک بھی ہے۔ اِن کی شاعری کے تین محور ہیں اور وہ ‘‘ حْسن، عشق اور محبت’’ہیں - بقول استاد فوق لدھیانوی
حْسن اْدھر ہے ناز میں، عشق اِدھر نیاز میں
مارا گیا غریب دل دونوں کی ساز باز میں
شازیہ کا عشق پْر وقار ہے۔ وہ خود دار ہیں۔ قندیلِ مرّوت ہیں۔ اْن کا محبوب تصوّراتی اور تخیّلاتی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور آتشِ ہجر نے اْنہیں خاکستر ِ جاں بنا دیا ہے۔ بقولِ غالب
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
شاعری کے علاوہ شازیہ عالم شازی سماجی شخصّیت بھی ہیں۔ روٹری کلب سے منسلک ہیں اور رفاعِ عامہ کے کاموں میں طاق اور خدمتِ انسانیّت میں مشّاق ہیں - گویا وہ ایک فعّال اور عملی شخصّیت بھی ہیں۔بنیادی طور پر وہ غزل کی شاعرہ ہیں۔ لیکن اْنکی نظمیں اور چند ہائیکو بھی بہت عمدہ ہیں۔’’ سمندر راز داں میرا’’ اْن کی نمائندہ نظم ہے جو ایک بحرِ بیکراں ہے۔اْن کی شاعرانہ داستاں ہے۔ دردِ دل کا بیاں اور اْن کی فکر کی ترجماں ہے۔
یہ نظم سرنام کتاب بھی ہے۔دیگر منظومات مختلف موضوعات پر ہیں جن میں ‘‘ مجھے تْم بھْول مت جانا’’، ‘‘ کہاں ہو تْم’’، اور ‘‘ لوٹ کر ایک بار آ جاؤ’’ شدّت جذب عشق سے بھرپْور اور واد تیرہ و تار میں مثلِ چراغِ طور ہیں۔ آپ کے رومانوی اشعار دلدوز و پْرسوز ہیں۔ ایک غزل کے دو شعر ملاحظہ ہوں
جب بھی ملتے ہو مجھے خاص بنا دیتے ہو
مجھ میں چاہت کے حسیں پْھول کِھلا دیتے ہو
کیا تمہیں کم ہے مرے یار محبت کی ضیاء
میرے ہوتے جو چراغوں کو جلا دیتے ہو
شازیہ اقرارِمحبت میں دلیر و بے باک ہیں کیونکہ اْن کے نزدیک محبت نہ گناہ ہے اور نہ جْرم بلکہ یہ ایک فطری پاکیزہ جذبہ ہے۔ محبت کا پیغام عام کرنا انسانّیت کی معراج ہے۔ جگر مراد آبادی نے سچ کہا تھا۔
’’ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ‘‘۔میں بھی شازیہ عالم شازی کا ہمنوا ہو کر حافظ شیرازی کا معتقد ہوں اور اْن کے اِس شعر کر حرزِ جاں گردانتا ہوں
خلل پذیر بود ہر بِنا کہ می بینی
بجز بِنامحبت کہ خالی از خلل است