مقروض ہے مقروض ہے یہ قوم تمہاری

ریحانہ شبیر 
21 سالہ عبدالمعید جس کی آنکھوں سے روشنیاں  پھوٹتی تھیں۔ مستقبل کے خواب جگمگاتے تھے۔ ایک پیاری سی قہقہے لگاتی مسکراتی زندگی کے سنہرے  سپنے دیکھتا تھا۔ماں کی گود میں سر رکھ کے مستقبل خواب بنتا تھا۔ اپنے دل میں بسی ہوئی وہ تصویر دکھاتا تھا جو اس نے سب سے چھپا کے رکھی تھی۔ ماں جو اس کی دوست ، اس کی ہم راز اور اس کے خوابوں کی امین تھی۔ 
عبالمعید سوئی کیڈٹ کالج سے پاس ہونے والا وہ نوجوان تھا جس نے اس کالج سے پاس آئ￿ وٹ ہونے والے پہلے شہید کا درجہ پایا۔ 9 مئی کے واقعات نے ہر محب وطن پاکستانی کو آزردہ اور رنجیدہ کردیا۔ دل میں ان شہدائ￿  کے والدین کا خیال آتا تھا جنھوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے اس وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے وقف کر دیے۔ اس قوم کو پرسکون نیند دینے کے لئے خود لہو لہان ہوئے۔۔  کہیں اپنے جسموں پہ گولیوں کی بوچھاڑ سہی تو کہیں زمین میں دبے بارود نے ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دئے۔ کیا بیتی ہو گی ان عظیم والدین پہ جن کی آنکھوں میں فخراور غم چھلکتے تھے اس قوم نے ان کی آنکھوں میں اذیت ، دکھ اور رنجیدگی بھر دی۔ ان خیالات نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم شہداء کے والدین سے ملیں ان سے اپنی محبت کا اظہار  کریں اور بتائیں کہ یہ سب کچھ چند شر پسند عناصر نے کیا ہے جبکہ یہ قوم اور ہم سب آپ کے مقروض ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہم نے سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید شہید کے والدین سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ بیٹی کو ساتھ لیا تاکہ وہ بھی جان سکے کہ کیسے ہوتے ہیں وہ والدین جن کی قربانیوں کی بدولت ہم ایک اچھی اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ عبدالمعید شہید کے والد کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ جبکہ والدہ نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ مجھے یوں لگا جیسے عبدالمعید کا تذکرہ کر کے ہم نے ایک ماں کے زخم ادھیڑ دیئے ہوں۔ جیسے وہ خود کو ادھر ادھر کے کاموں میں الجھا کر، اس کے کپڑے ، جوتے خیرات کر کے ، اس کی تصویروں کے البم الماریوں میں بند کر کے اس کی یادوں سے نکلنے کی سعی رائگاں کر رہی ہوں۔ اور ہمارے جانے سے ان کے سینے میں پلنے والا دکھ کا لاوا پھوٹ نکلا ہو۔ شہادت یقینا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ شہید کومیرے رب نے زندہ کہا ہے اور اس کا  مقام اور مرتبہ بہت بلند کیا  ہے مگر وہ مادی وجود جو ہمارے درمیان رہتا ہے۔ جو چلتا پھرتا ہے ، گفتگو کرتا ہے ، محبت کرتا ہے ، خواہشیں کرتا ہے ، جس کے ہونے کا احساس ہماری روح کو سرشار کرتا ہے ، وہ مادی وجود بچھڑ جاتا ہے ، کھو جاتا ہے ، نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ یہ صدمہ والدین شکرانے کے ساتھ رب کی رضا سمجھ کے قبول کرتے ہیں اور اپنے دل کو یہ کہہ کر حوصلہ دہتے ہیں کہ دھرتی کی آبرو اور وطن کے باشندوں کے لئے ایسے سو بیٹے بھی قربان کئے جا سکتے ہیں۔ وہ اس سوچ کے ساتھ دل میں طمانیت محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بچے نے اس قوم کے مستقبل کے لئے اپنا مستقبل ، اپنی جان اور اپنے خواب قربان کئے ہیں۔ مگر افسوس ہے اس قوم پہ جو ان والدین کے لئے باعث آزار بنی۔ اس قوم نے محبت اوراحسان مندی کے جذبوں کی بجائے اپنے ہی محسنوں کو رسوا کیا ، پوری دنیا میں ان کا تماشہ بنایا اور اپنے شہیدوں کے مجسموں کو بھی نہ چھوڑا ، آہ ، ہم شرمندہ ہیں اپنے شہدائ￿  اور ان کے والدین سے ، ہم مقروض ہیں ان جانبازوں کے۔ 
عبدالمعید شہید کی والدہ بیٹے کو یاد کرتی ہیں تو ان کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں عبدالمعید کو بچپن میں سائکلنگ کا شوق تھا اور وہ گھنٹوں سائکل چلاتا رہتا۔ کیڈٹ کالج میں داخلے سے لے کر آئی ایس ایس بی کلئر کرنے تک اس کو کسی مقام پہ رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور سارے مراحل خودبخود طے ہوتے چلے گئے۔ آئی ایس ایس بی کے ٹیسٹ سے پہلے ہی ماں نے خواب میں اسے پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر بھاگتے ہوئے دیکھا تو اسے مبارک باد دے ڈالی کہ بیٹا تیرا ٹیسٹ کلیر ہو گیا ہے۔ لیکن جب اس کی وزیرستان تعیناتی ہوئی اور والد بیٹے کو بس میں بٹھانے کے لئے نکلے تو ماں کی آنکھ لگ گئی اور خواب دیکھا کہ ماں بیٹا ایک سیاہ جال میں پھنس گئے ہیں ، ماں جال سے باہر آ جاتی ہے مگر بیٹا ساتھ نہیں تو ماں تڑپ اٹھی۔ اپنا خواب تو کسی کو نہ بتایا مگر بیٹے سے پریشانی کا اظہار کیا۔۔ بیٹا ہر بار حوصلہ دیتا اور کہتا ماں آپ پریشان نہ ہوا کریں۔ عبدلمعید کا اپنی والدہ سے دوستانہ تعلق تھا۔ وہ ان سے اپنی محبوبہ کے رنگ ، شکل اور انداز گفتگو کی تعریف کرتا اور اس کے ساتھ خوبصورت مستقبل کے خواب دیکھتا ہوا رزق خاک ہو گیا۔ والدین اس عظیم سعادت کے لئے رب کے شکر گزار بھی ہیں اوربیٹے کی جدائی میں  غم سے نڈھال بھی۔ جوان بیٹوں کی جدائی اور بچھڑنے کا صدمہ بہت بڑا ہے اور شائد میرے پاس اسے بیان کرنے کے لئے الفاظ بہت کم ہیں۔ عظیم ہیں وہ والدین جو اپنے زندگی سے بھرپور سپوت اس دھرتی پہ وار دیتے ہیں اور بدقسمت ہے وہ قوم جو ان قربانیوں سے بے بہرہ ہو کر اپنے شہدائ￿  کی قدر نہیں کرتی۔ ہم تو ان والدین کا  قرض کبھی اتار ہی نہیں سکتے۔ ہم ان کے مقروض ہیں اور ہمیشہ ان کے مقروض رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن