فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی
ملک عزیزکے موجودہ سیاسی ،معاشی اور اخلاقی حالات پر ہر کوئی پریشان ہے۔ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور امید کی کوئی کرن نظرنہیں آرہی۔ قوم بدترین اور بے مثال عہد زوال میں سے گزر رہی ہے۔مافیاز نے عام آدمی کا جینا مشکل کیا ہوا ہے۔منہ زوری اور بے لگامی کا دور دورہ ہے۔ملک کو اس نوبت تک پہنچانے والے بیرونی دشمن نہیں بلکہ اپنے ہی ہیں۔اپنے ہی لوگوں نے اپنوں ہی کی زندگی جہنم بنائی ہوئی ہے۔
سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جن کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں۔امن ،محبت اور رواداری کا کلچر ختم ہوتا جارہا ہے۔بدامنی ،نفرت، تعصب اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔اس کے مناظر اور مثالیں کثرت کے ساتھ انفرادی، خاندانی اور اجتماہی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔یہاںیہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام امن ، محبت،ہم آہنگی،اخوت ، مساوات ، برداشت ،احترام اور رواداری کا درس دیتا ہے۔دنیا بھر میں اسلام کے فروغ میںان تعلیمات نے بنیادی کردار ادا کیا۔
مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کاایک راز یہ ہے کہ انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر زور دیا۔بہترین اخلاقی تربیت کی وجہ سے ان کے عوام محب وطن، ، فرض شناس اور ایمان دار ہیں۔یہ معاشرے سماجی اور اخلاقی برائیوں سے پاک ہیں۔انسانوں کی قدر کی جاتی ہے۔کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر کوئی کرپشن کرے تو وہ سزا سے نہیں بچ سکتا۔ملک عزیز میں نہ تو تعلیم ہے اور نہ ہی تربیت۔ تعلیم اس لیے نہیں کہ آدھی سے زیادہ آبادی اپنی زندگی میں کسی تعلیمی ادارے کا منہ تک نہیں دیکھتی۔تربیت اس لیے نہیں کہ تربیت کا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے۔مصلح قوم خواب خر گوش کے مزے لے رہاہے۔لیڈران قوم اپنے مذموم مقاصد کے لیے عوام کو آپس میں لڑا رہے ہیں۔معماران وطن روزی روٹی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔اصلاح کون کرے۔
قوم جس اخلاقی زوال کا شکار ہے اگرچہ اس سے نکلنا آسان نظر نہیں آتا لیکن یہ ناممکن بھی نہیں ہے۔اس بھنور سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے معاشرے کے اخلاقی انحطاط کی وجوہات جاننا اور اس کے تدارک کے بغیر مثالی معاشرہ کی تشکیل نا ممکن ہے۔اسلامی احکامات و تعلیمات سے دوری مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ ہے۔ہم نے مغرب کی بری اقدار کو چن لیا اور اچھی روایات کو چھوڑ دیا۔ بدقسمتی سے اس خطہ کے عوام طویل عرصہ تک بد ترین دور غلامی میں رہے۔پھر یوں ہوا کہ طویل جدو جہد کے بعد جسمانی طور پر تو آزاد ہو گئے لیکن ذہنی اور فکری آزادی ابھی بہت دور ہے۔ظاہر ہے غلام ذہن اور فکر سے اچھائی کی امید نہیں کی جا سکتی۔بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
سیانے کہتے ہیں کہ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے زیادہ بری ہے۔ ذہنی غلام سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور اپنی فلاح و بہبود سے محروم ہو جاتا ہے۔ غلامانہ فکر نے ہمارے نظام کو تباہ کر دیا ہے۔سب سے سے زیادہ بربادی ہمارے تعلیمی نظام میں ہوئی۔ہمارا تعلیمی نظام رٹے رٹائے طوطے پیدا کرہا ہے۔تعلیمی ادروں کا نصاب شخصیت سازی اور کردار سازی کے مواد سے خالی ہے۔ ہمیں نہیں پتا کہ ہم قوم کو کو کس سمت لے کر جانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کس قسم کے نصاب کی ضرورت ہے۔ہمٹی ڈمپٹی اور جیکل اینڈ جیکل ایسی نظمیں یہی ہیرے پیدا کریں گی جو اس وقت دیکھنے کو ملتے ہیں۔
خوش قسمتی سے اس خطہ میں بڑے بڑے صوفی دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی تعلیمات اور کردار سے لاکھوں افراد کی تربیت کا اہتمام کیا۔شاعری اور نثر کی صورت میں ان کی تعلیمات آج بھی قابل عمل اورموثر ہیں۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا شمار ان صوفی دانشوروں میں ہوتا ہے جن کی تعلیمات اور کردار نے بر صغیر پاک و ہند میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔بابا صاحب نے امن ، محبت اور روداری کو عام کیا۔آپ عظیم شخصیت تھے اس کے باوجود انسانیت سے محبت ، عاجزی انکساری کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک درویش نے مسجد میں قیام فرمایا۔آپ نے فراست باطن سے معلوم کرلیا کہ اس درویش کو طعام کی ضرورت ہے۔آپ گھر تشریف لے گئے۔گھر میں جوار کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ آپ نے چکی پر بیٹھ کر اپنے ہاتھ مبارک سے آٹا پیس کر روٹی پکائی اور درویش کو کھلائی۔یہ ایک واقعہ ہے اس جیسے سینکڑوں ایمان افروز اور روح پر واقعات اور آپ کے اشعار شخصیت سازی اور کردار سازی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔آپ کی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنا دینے سے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، آپس میں دست و گریباں قوم شیر و شکر ہو سکتی ہے۔