ضیائپاشیاں…ڈاکٹر شہباز احمد چشتی
Dr.shahbazadvocate@gmail.com
دنیا اس وقت سائنسی انقلاب ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سو شل میڈیا کی وجہ سے گلو بل ویلج بن چکی ہے۔دنیا کے کسی ایک کو نے میں ہو ئے وا قعہ کی خبر چند لمحو ں میں دوسرے کو نے تک با آسانی پہنچ جا تی ہے بلکہ بر اہ راست نشریات کی بدولت ساری دنیا کسی خطاب ، تقر یب یا واقعہ کو بیک وقت دیکھ اور سن سکتی ہے۔میڈیا ریاست کا اہم ترین ہی نہیں بلکہ بنیادی ستو ن بن چکا ہے کیونکہ ادارو ں یا حکو متوں کے الٹنے پلٹنے یا ریاستی مشینری پر اثر انداز ہو نے میں میڈیا اپنا اثر ورسوخ دکھا چکا ہے۔
راقم الحروف نے ایک دفعہ مو ٹیو یشنل سکا لر قاسم علی شاہ کی مو جو دگی میں استاد محترم پیر سید زاہد صدیق شاہ بخاری کی زیر صدارت بو کن شریف گجرات میں اپنی تقریر کے دوران نامور ماہر تعلیم ، مفسر قر آن ، عظیم سیر ت نگار ، حضور ضیا الامت جسٹس پیر محمد کر م شاہ الا زہری کے حوالے سے بتا یا کہ آپ فرماتے تھے کہ قومو ں کی بقا کی جنگیں کلاس رومز میں لڑی جا تی ہیں یعنی میدان جنگ میں جنگ نہیں بلکہ جنگ کے نتائج سامنے آتے ہیں اصل تیاری تو کلاس رومز اور ٹر یننگ سینٹرز میں ہو تی ہے تو قاسم علی شاہ صاحب نے میر ی گفتگو کے بعد کہا کہ میں ان کی گفتگو سے اتفاق کرتے ہوئے ساتھ یہ بھی کہو ں گا کہ اب قومو ں کی بقا وسالمیت کی جنگیں سو شل میڈیا پر لڑی جا رہی ہیں ۔ہمارے علما ئے کر ام کو میڈیا اور خاص کر کے سوشل میڈیا کو جو اب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ طا قتور پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ شجر ممنو عہ سمجھنے کی بجائے دین کی ابلاغ کا ذریعہ بنانا چا ہئے جس تیزی کیساتھ شر پھیل رہا ہے اس سے زیادہ تیزی کیساتھ خیر کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔علمائے کر ام کو جو دین نبوی کے وارث ہیں درج ذیل قر آنی پیغام کا داعی بننے کیلئے ذرائع ابلا غ کو استعمال کر نا چاہئے۔
سو رۃ الما ئدہ آیت 67تر جمہ ( اے رسو ل ? پہنچادو اس پیغام کو جو کچھ اترا آپ? پر تمہارے رب کی طر ف سے اور اگر ایسا نہ ہو ا تو آپ? نے اس کا کو ئی پیغام نہیں پہنچایا ) اور ساتھ ساتھ حجتہ الوداع کے موقع پر زبان نبوت? سے نکلنے والے آپ ? کے اس پیغام کے ابلا غ کیلئے تمام کو ششیں اور صلاحتیں وقف کر دہنی چاہئے بخاری شریف کی حدیث کے مطابق آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مو جو د ہے وہ غیر مو جو د تک ( میرا یہ پیغام ) پہنچا دے ، کیونکہ یعض وہ افراد جن تک ( یہ باتیں ) پہنچائی جا ئیں گی وہ بعض ( موجو دہ ) سننے والو ں سے کہیں زیادہ ان باتو ں کے معنی ومفہو م کو سمجھ سکیں گے۔تنظیم اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد اور تحریک منہاج القر آن کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر علامہ محمد طا ہر القادری نے سو شل میڈیا کے انقلاب سے قبل ہی ابلا غ دین کیلئے میڈیا کی اہمیت کا احساس کر کے بر وقت اس پر کا م شروع کر دیا تھا اور آج ان کے خطابات کے نتائج اور اثرات آپ کے سامنے ہیں اور جب سے سوشل میڈیا کے اثرات پھیلنا شروع ہو ئے ہیں اس کے مثبت استعمال کی وجہ سے بھیرہ شریف میں شب کر م کی صورت میں حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات نے جبکہ علامہ خادم حسین رضوی ، علامہ پیر زادہ ثاقب رضا مصطفائی ، علامہ پیر اجمل رضا قادری، قاسم علی شاہ سمیت کتنے ہی ایسے علما ، سکالرز اور مو ٹیویشنل سپیکرز ہیں جنھو ں نے نو جو ان نسل کی ذہنی ، علمی ، فکر ی اور تنظیمی صلا حیتو ں میں بے پنا ہ اضا فہ ہی نہیں کیا بلکہ سیکو لر ازم ، لا دینیت اور دہر یت کی جڑو ں کو اکھا ڑ رکھ دیا ہے۔
قلندر لا ہور تو پہلے ہی خو شخبری دے گئے تھے
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویر اں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
مجھے جیسا کم علم بھی جب سو یا دو سو افراد کے سامنے گفتگو کر کے اس کے کلپس سو شل میڈیا پر ڈالتا ہے تو چند دنو ں میں ہزارو ں افراد سن لیتے ہیں حالانکہ میں اپنے ایسے بہت سے افراد کو جانتا ہو ں جو مجھ سے زیادہ قابل ،محنتی اور علم وفکر کی دولت سے مالا مال ہیں مگر سوشل میڈیا پر دین کے ابلاغ کی طا قت و اہمیت کو نظر انداز کئے ہو ئے ہیں ۔میری اس قلمی کاوش کا مقصد یہ ہے کہ میں ان دوستو ں کے بحر سکو ں کی مو جو ں میں اضطراب اور طلاطم پید اکر سکو ں تا کہ وہ دجالی میڈیا کے سا حرانِ مکر و فریب کے مقابلے میں عصائے مو سو ی کا کر دارادا کر یں وہ اپنے علم وفکر کی طاقت سے دہریت کی نار نمر ود کو فکر ابراہیمی کے نو ر سے گل و گز ار کر دیں ، وہ ابو لہبی کے شراروں کو چراغ مصطفوی کی ضیا پا شیو ں سے بھسم کر کے رکھ دیں تا کہ امت کی نا قہ ئ بے تو قیر تا جدار ختم نبوت? سے تعلق غلامی استوار کر کے نو ر تو حیدکی شمع لا زوال پر نثار ہو نے کیلئے بے قرار ہو جائے میں ان کے اندر دینی ذمہ داریو ں کی دبی ہو ئی چنگا ری کو سلگا کر یہ احساس بیدار کر سکو ں کہ۔
وقتِ فر صت ہے کہاں کا م ابھی با قی ہے
نور تو حید کا اتمام ابھی باقی ہے
آجکل سوشل میڈیا خا ص کر یو ٹیو ب پر ایک طر ف ایسے ایسے چینلز بنے ہو ئے ہیں جہاں نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملاں خطرہ ایمان کے مصداق حکیم لو گ طب کے نام پر لو گو ں کی صحت اور زند گیو ں سے کھلواڑ کر رہے ہیں تو دوسری طرف چند نام نہاد سکا لز دین کے نام پر سستی شہرت حاصل کر نے کیلئے مذہبی چو رن بیچ رہے ہیں اور ان کے فالورز اور سبسکرا ئبرز ہزاروں میں ہیں ان حالا ت میں صاحبان علم و دانش کا فرض عین بنتا ہے کہ سو شل میڈیا کے میدان کو خالی نہ چھو ڑیں اس کو محض شر نہ سمجھیں اس کے اندر بہت سے خیر کے پہلو بھی ہیں ۔کیا خبر کہ اللہ کریم اس شر کے بطن سے خیر کے چشمے ابال دے ،جو رب فرعون کے محل میں مو سی علیہ السلام جسے پیغمبر کی پر ورش فرما کر فرعون کی نام نہاد خدائی کے سامنے اس پیغمبر کو کھڑا کر کے اپنی تو حید کا اعلان کر وا سکتا ہے۔ جو حکیم ودانا رب بر طانوی سامراج کے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوا کر قائد اعظم اور علامہ اقبال کو انہیں کے نظام سے لڑا کر ریاست پا کستا ن بنوا سکتا ہے اس قادر مطلق ذات سے کیا بعید ہے کہ وہ خیر کی چند کو ششوں کو مجتمع کر کے دجالی طاقتو ں کا رخ بدل دے۔میری گذارش یہ ہے کہ ہر جید عالم ، سکالرز ، سپیکر فیس بک پیجز ، یو ٹیوب چینلز اور سماجی رابطوں کی دیگر سائٹس کے ذریعے اللہ کے کلمے کو بلند کر نے اور عشق محمد ی کی شراب طہور پلا کر نسل نو کو حبیب کبر یا پر دل جاں سے فدا ہو نے کا جذبہ عطا کرے۔
بقول علامہ اقبال
تو نے پو چھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طر ح صاحب اسرار کر ے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام بر حق
جو تجھے حاضر ومو جود سے بیزار کرے
ایک وقت تھا جب علمائے کر ام شکو ہ کر تے تھے کہ میڈیا ان کو کو ریج نہیں دیتا ورنہ وہ بھی اپنی بات کو مو ثر طر یقے سے پہنچا سکتے ہیں اب تو شکوہ کی گنجائش نہیں رہی سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم آپ کے پا س موجود ہے اب صرف کا م کر نے کی اشد ضرورت ہے لیکن رطب و یا بس اکھٹا کر نے کی بجائے معیاری اور مضبوط مو اد کا اپلو ڈ ہو نا شرط ہے جب کہ دوسرا محض اپنی ذات کی تشہیر یا مادی منفعت کی بجائے مخلوق خدا کی نفع بخشی مقصود ہو کیونکہ علم اورآ سانی با نٹنے والا کبھی مالی اور دنیاوی فائدے سے بھی محروم نہیں رہ سکتا اللہ کریم کا ( سور ہ رعد) میں وعد ہ ہے کہ جو چیز یا فرد لو گو ں کیلئے نفع بخش ہو تا ہے ہم اس کو کا ئنات میں دوام واستمرار بخش دیتے ہیں۔
آئیے آج ہی عہد کیجئے کہ ہم سوشل میڈیا کے طاقتور پلیٹ فارم کے ذریعے فکری انقلاب اور دینی شعور کو اجاگر کرنے میں کو ئی کو تا ہی نہیں کر یں گے اگر ہم نے سستی کی تو تا ریخ کا فیصلہ یا د رکھنا
تا ریخ کی گھڑیو ں نے ورہ درد بھی دیکھا ہے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیو ں نے سزا پا ئی
علمائے کر ام ، میڈیا اور دین کا ابلا غ
Jul 19, 2023