چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت منعقدہ کورکمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد گروپوں سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیرصدارت 258ویں کورکمانڈرز کانفرنس میں جو جی ایچ کیو رالپنڈی میں منعقد ہوئی‘ ملک کی اندرونی سکیورٹی صورتحال کا مفصل جائزہ لیا گیا اور فوج کی اپریشنل تیاریوں اور تربیتی پہلوئوں پر بھی گفتگو کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فورم نے دہشت گردی کیخلاف عظیم قربانیاں دینے والے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ فورم نے قراردیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپ ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔
کورکمانڈرز کانفرنس میں پڑوسی ملک افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردوں کو اپنی کارروائیوں کیلئے حاصل آزادی اور دہشت گردوں کو جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی کو نوٹ کیا گیا اور باور کرایا گیا کہ دہشت گردوں کے پاس جدید ہتھیاروں کی موجودگی پاکستان کی سلامتی کو متاثر کرنے کی بڑی وجوہات ہیں۔ کانفرنس سے خطاب کے دوران آرمی چیف کا کہنا تھا کہ معروضی تربیت ہماری پیشہ ورانہ مہارت کا خاصہ ہے۔ قومی سلامتی کو لاحق کسی بھی خطرے سے عہدہ براء ہونے کیلئے افواج پاکستان کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فورم کو اقتصادی بحالی منصوبے‘ سرمایہ کاری‘ زراعت اور آئی ٹی سے متعلق معاملات پر بھی بریفنگ دی گئی اور معدنیات و دفاعی پیداوار کے شعبوں میں فوج کے کردار سے بھی آگاہ کیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ معیشت کی بحالی کے اقدامات کو ہر ممکن تکنیکی اور انتظامی معاونت فراہم کی جائیگی۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد ہمیں اپنی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیاں ختم نہیں تو کم ہونے کی ضرور امید تھی مگر طالبان کی عبوری حکومت کے اب تک کے دو سال کے دوران دہشت گردوں نے افغان سرحد کی جانب سے جس شدت کے ساتھ پاکستان کا رخ کیا ہے اور ہمارے خطے کے امن و امان کا گہوارا بننے کے خواب کی تکمیل نہیں ہونے دی‘ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی کابل انتظامیہ نے بھی پاکستان کے بارے میں وہی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے جو امریکی‘ بھارتی سرپرستی میں ان کے کٹھ پتلی کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار حکومت میں اختیار کی گئی جس کے تحت پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں اور کابل انتظامیہ کی سرپرستی میں یہاں دہشت و وحشت کا بازار بھی گرم کیا جاتا رہا۔ یہ امر واقع ہے کہ طالبان ہمارے لئے بے فیض دوست ثابت ہوئے ہیں جن کی کابل کے اقتدار میں واپسی کی راہ بھی پاکستان کی امن عمل کوششوں سے ہموار ہوئی جبکہ پاکستان نے تباہ شدہ افغانستان کی بحالی کیلئے اقوام عالم سے بھی ہے فورم پر طالبان حکومت کا ساتھ دینے کی اپیل کی جس کے جواب میں طالبان کی کابل انتظامیہ کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے رسمی طور پر ہتھیار ڈالنے اور پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کی اپیل کی جاتی رہی مگر فی الحقیقت افغان طالبان کی حکومتی قیادت اور تنظیمی عہدیداران کی جانب سے پاکستان کیخلاف ’’بغض معاویہ‘‘ والا طرز عمل اختیار کرکے اسکی امن عمل کی کوششوں کی تضحیک اور طعن تشنیع کا راستہ اختیار کرلیا گیا۔
طالبان کی عبوری حکومت کے آغاز ہی میں طالبان کے گروپوں نے پاک افغان سرحد پر لگائی گئی باربڈ وائر اکھاڑ پھینکی اور ساتھ ہی پاکستان کے پرچم کو بھی پائوں تلے روندا گیا جس کے بعد کابل میں پاکستان کے سفارتخانہ پر دہشت گرد حملہ ہوا اور پھر افغان سرحد سے پاکستان داخل ہونیوالے دہشت گردوں کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی لامتناہی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان میں زیادہ تر وارداتوں میں پاک فوج کے اہلکاروں اور تنصیبات کو ہدف بنایا گیا۔ اس طرح افغان جنگ ختم ہونے اور کابل میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی پاکستان میں امن و استحکام کا خواب ادھورا ہی رہا۔ اس ارض وطن پر ہونیوالی دہشت گردی میں اصل ہاتھ تو بھارتی ’’را‘‘ کا ہے جبکہ طالبان کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھارت اور کابل حکومت دونوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ ’’را‘‘ نے اپنا نیٹ ورک بلوچستان اور اس سے ملحقہ پاک ایران سرحد تک پھیلا رکھا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے چمن بارڈر سے خیبر پی کے طورخم بارڈر تک ’’را‘‘ نے اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے کیمپ قائم کر رکھے ہیں چنانچہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی جو سہولت بھارت کو کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں حاصل تھی‘ بعینہ وہی سہولت بھارت کو طالبان کی کابل حکومت سے بھی میسر آچکی ہے جس کی شہ پر کالعدم ٹی ٹی پی نے بھی افغان سرزمین پر اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور وہیں سے دہشت گرد گروپ آسانی کے ساتھ سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے ان دہشت گردوں کی افغان سرحد پر نقل و حمل روکنے کیلئے پاک افغان سرحد بند بھی کی جاتی رہی مگر کابل انتظامیہ کے احتجاج پر پاکستان کی حکومت ہر بار سرحد کھولنے پر مجبور ہوتی رہی جسے طالبان کی جانب سے یقیناً ہماری کمزوری سے تعبیر کیا گیا۔ اب دہشت گردی کی کسی واردات پر دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے رسمی احتجاج بھی کیا جاتا ہے تو اس پر کابل انتظامیہ کی جانب سے ڈھٹائی پر مبنی ردعمل سامنے آتا ہے اور پاکستان کو ہی اپنی صفیں درست کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے جس تواتر سے پاکستان میں پاک فوج کو ہدف بنا کر دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں‘ ان میں افغانستان سے آنیوالے طالبان گروپوں کا ملوث ہونا بھی ثابت ہو چکا ہے اور اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے ترجمان آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں کابل حکومت کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کو لگام دینے کا کہا تھا مگر اسکے جواب میں بھی طالبان حکومت نے مخاصمانہ ردعمل کا ہی اظہار کیا۔
اب کورکمانڈرز کانفرنس میں ٹھوس حقائق و شواہد کی بنیاد پر کالعدم ٹی ٹی پی اور دوسرے دہشت گرد گروپوں سے پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جو درحقیقت کابل انتظامیہ کو وارننگ ہے۔ اگر طالبان حکومت بادی النظر میں خود ہی دہشت گردوں کیلئے سہولت کاری کر رہی ہے تو ہمیں اسکے معاملہ میں مزید کسی خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں بہرصورت ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی ہی سب سے عزیز ہے جس کے تحفظ کیلئے افواج پاکستان ہمہ وقت چوکس و تیار بھی ہیں اور کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کر رہیں۔ ان حالات میں یقیناً ہم سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہماری سلامتی کے درپے دشمنوں کو ملک کے ایسے حالات سے ہی فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ملتا ہے۔ اس تناظر میں ہماری جانب سے کابل انتظامیہ کو بھی دوٹوک انداز میں باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمیں کسی بھی حوالے سے کمزور نہ سمجھے۔