اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل) قومی اسمبلی 8اگست کوتحلیل کر دی جاتی ہے تو ملک میں طویل مدت کے بعد کسی قائم مقام صدر کی زیر صدارت عام انتخابات ہوں گے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے عہدہ صدارت کی 5 سالہ مدت 9 ستمبر کو مکمل ہو رہی ہے اور الیکشن کمیشن نے 9 اگست تک صدر مملکت کے الیکشن کے شیڈول کا اعلان کرنا ہے تاہم پیپلز پارٹی نے اتحادی حکومت کو صدر مملکت کے الیکشن شیڈول سے قبل 8 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دے دی ہے۔پی پی کا اپنی اس تجویز سے متعلق یہ ٹھوس موقف بھی ہے کہ الیکٹورل کالج قبل از وقت ختم کرنے سے ہمیں الیکشن کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔ پی پی کی اس تجویز کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں یہ خبر بازگشت کر رہی ہے کہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت سے چند روز قبل 8 اگست کو تحلیل کر دی جائے گی۔اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری صدر مملکت کو ارسال کی جائے گی اگر انہوں نے اس پر دستخط نہ کیے تو آئین کے مطابق 48 گھنٹے میں اسمبلی ازخود تحلیل ہو جائے گی۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر عام انتخابات نومبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں ہونے کا امکان ہے جب کہ صدر کا الیکٹورل کالج قومی اسمبلی ممبران ہوتے ہیں۔ ایسے میں جب قومی اسمبلی نہیں ہوگی تو پھر نئے صدر کا انتخاب کیسے ممکن ہوگا۔ یوں نئے الیکشن قائم مقام صدر کے زیر صدارت ہوں گے۔موجودہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی مدت 9 ستمبر کو مکمل ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت صدارتی الیکشن شیڈول 9 اگست کو دیا جانا تھا تاہم موجودہ صورتحال میں صدر مملکت کا الیکشن عام انتخابات کے ایک ماہ بعد ہی ممکن ہوگا۔واضح رہے کہ اس سے قبل 1988 میں اس وقت کے صدر ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد قائم مقام صدر غلام اسحاق خان کی زیر صدارت نومبر 1988 میں عام انتخابات ہوئے تھے جس میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی اور بینظیر بھٹو نے نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔