بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
امام بخاری کا اصل نام محمد اور کنیت ابو عبداللہ تھی اور والد کا نام اسماعیل تھا۔ جو امام مالک کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ کے دادا کا نام ابراہیم بن المغیرہ تھا۔ ولادت کے تھوڑے ہی عرصے بعد والد کے فوت ہوجانے پرآپ کی پرورش والدہ نے کی جو نہایت عبادت گزار اور پاکباز خاتون تھیں۔ بچپن میں محمد بن اسماعیل کی آنکھیں خراب ہو گئی تھیں اور ان کی والدہ اکثر اوقات ان کے لئے دعا کرتی رہتی تھیں۔ ایک دن خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو بشارت دی کہ آپ کی دعا اللہ نے قبول کر لی ہے۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا اور آپ کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔ ہوش سنبھالتے ہی محمد بن اسماعیل المعروف امام بخاری اپنی والدہ اور بڑے بھائی احمد کے ساتھ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس گئے۔ والدہ اور بھائی تو واپس آ گئے مگر آپ وہاں ہی رہ گئے۔ ان کو بچپن ہی سے علم حدیث سیکھنے کا بہت شوق تھا۔امام بخاری کم عمری میں ہی وقت کے مشہور محدثین کے درس میں شریک ہواکرتے تھے۔ آپ کو 14 سال کی عمر میں ہزاروں احادیث زبانی یاد تھیں اور جید علماء کرام اور محدثین اپنی تحریریں ان سے تصدیق کرایا کرتے تھے۔
آپ نے پہلے بخارا کے علماء اور محدثین کی صحبت سے فیض حاصل کیا اور پھر تحصیل علم کے لیے حجاز، بصرہ، بغداد، شام، مصر، خراساں، جزیرہ، مرو، بلخ اور ہرات کا سفر اختیار کیا اور اس دوران ہر طرح کی تکلیفیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ حجاز کے جن جید علماء کرام اور محدثین سے حدیث سیکھا ان کے نام یہ ہیں۔ امام ابو الولید، احمد بن الارزقی، اسماعیل بن سالم، عبداللہ بن یزید، ابوبکر بن اسزبیر اور علامہ حمیدی۔ مدینہ منورہ میں چاند کی روشنی میں بیٹھ کر تاریخ کبیر کا سودا لکھا۔ بصرہ اور کوفہ کے اہل کمال کی صحبت سے علم کی پیاس بجھانے کے بعد بغداد گئے جو خلافت عباسیہ کی قدر شناسی کی بدولت اس وقت اہل علم کا مرکز بن گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر امام احمد بن حنبل۔، محمد بن سائق، محمد بن عیسی الصباغ اور سریع بن النعمان سے فیض حاصل کیا اور اس کے بعد شام کے علماء سے تکمیل علم حدیث میں مدد حاصل کی۔ مصر اور مرو کے علمائے کرام سے حدیثیں حاصل کیں۔ ہرات، نیشاپور کے اہل علم و کمال سے بھی استفادہ کیا۔ آپ سے تقریبا ایک لاکھ لوگوں نے روایت کی ہے۔امام بخاری کا حافظہ اتنا اچھا تھا کہ بعض اوقات حدیث شام میں سنتے اور بصرہ میں جاکر قلم بند کرتے تھے۔ عبداللہ بن محمد المسندی فرمایا کرتے تھے کہ ''امام بخاری حافظوں کے سردار ہیں''۔ اور امام فن ہیں۔ جو ان کو امام نہ مانے مجھے اس کی فضیلت میں کلام ہے۔ انہی کے قول کے مطابق اس وقت کے تین حافظ اس وقت تھے۔ا و ر امام بخاری ان کے امام تھے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں میں نے علل و اسانیہ کا سب سے بڑا عالم بخاری کو پایا ہے۔
ضبط نفس اور مجاہدہ کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ بیماری کی حالت میں طبیب نے مشورہ دیا کہ سالن کے ساتھ روٹی کھایا کریں آپ نے فرمایا چالیس سال تک تو بغیر سالن روٹی کھاتا رہا ہوں۔ البتہ اب شکر کے ساتھ کھا لیا کروں گا۔ دوران سفر اگر کھانا نہ ملتا تو پروا نہ کرتے۔ کبھی کسی کے سامنے جھولی نہیں پھیلائی آپ کی داڑھی سے ایک شخص نے تنکا نکال کر مسجد کے صحن میں پھینک دیا۔ مگر آپ نے صفائی کا خیال کرتے ہوئے تنکا اٹھا کر باہر پھینکا۔ ایک دفعہ ایک لونڈی نے ٹھوکر مار کر دوات سے سیاہی گرادی پوچھنے پر لونڈی نے بتایا کہ کیا کرتی راستہ تنگ تھا۔ اس جواب سے متاثر ہو کر اسے آزاد کرا دیا۔ آپ کو غیبت اور چغلی سے بہت نفرت تھی کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ کی تاریخ کبیر میں کچھ لوگوں کی غیبت موجود ہے تو فرمایا۔ کہ انھوں نے اپنے پاس سے کچھ نہیں لکھا مئورخین کی رائے کو شامل کیا ہے۔ آپ کو تیراندازی سبے حد پسند تھی ایک دفعہ آپ کا تیر ایک لکڑی کو لگا اور وہ چر گئی۔ جب مالک کو قیمت ادا کرنا چاہی تو اس نے کہا ایک لکڑی تو کیا پوری ملکیت آپ کے اوپر نثار کرنے کو تیار ہوں۔ آپ نے اس خوشی میں غرباء میں تین سو درہم صدقہ کیے اور پانچ سو حدیثیں سنائیں۔ویسے بھی آپ اپنی آمدنی کا بہت سا حصہ خدمت علم، غربا اور مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ آپ حدیثوں کے لینے میں بہت احتیاط اور محنت شاقہ سے کام لیتے تھے اور بغیر کسی تعصب کے مختلف مسالک کے لوگوں سے روایتیں کی ہیں۔ بخارا شہر کے باہر مزدوروں کے ساتھ مل کر مہمانوں کے لئے ایک سرائے تعمیر کرائی۔ رمضان میں 41 قرآن پاک ختم کرتے آپ کا عقیدہ تھا کہ ہر قرآن ختم کرنے پر ایک دعا قبول ہوتی ہے۔ آپ نے دو دفعہ دعا مانگی جو قبول ہوگئی اس دن کے بعد سے دعا مانگنا چھوڑ دی۔ مباداکہ میرے نیک اعمالوں کا بدلہ مجھے دنیا میں ہی نہ مل جائے۔ رات کو کئی کئی بار چراغ کو جلا کر حدیث شریف لکھتے تھے۔ وراق نامی شاگرد نے درخواست کی کہ مجھے حکم کیا کریں۔ فرمایا تم نوجوان ہو اس لئے تمہاری نیند خراب نہیں کرنا چاہتا آپ نے کبھی بھی بادشاہ یا حاکم وقت کی خوشامد نہیں کی۔ بخارا کے گورنر خالد بن احمد دہلی نے اپنے گھر میں بخاری کا درس دینے کیلئے طلب کیا۔مگر آپ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا شاہ وگدا ہر ایک کیلئے میری درسگاہ اور مسجد کے دروازے کھلے ہیں اگر کسی نے درس لینا ہو تو وہاں آجائے۔ بصرہ میں آپ کی درس حدیث میں محبتہدین، علماء، محدثین، صوفیائے کرام کے علاوہ ایک وقت میں کئی ہزار لوگ درس لیتے تھے۔ علمی بحث میں آپ کے اساتذہ آپ سے فیصلہ لیا کرتے تھے۔ امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ کہتے ہیں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جاننے والا امام بخاری سے بڑھ کر آسمان کے نیچے کوئی نہیں ہے۔ حاکم بخارا خالد بن احمد الزھلی گھر پر درس نہ دینے کے باعث ناراض تھا۔ چنانچہ امام بخاری پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور بخارا سے ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ آپ نے دعا مانگی کہ یا اللہ مجھے اپنے پاس بلا لے کیونکہ تیری زمین میرے لئے تنگ ہوگئی ہے۔ تقریبا ایک ماہ بعد آپ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ پاک کا انتقال 62 سال کی عمر میں بروز ہفتہ 256 ھ بمطابق جون870 ء میں ہوا۔امام بخاری کے تلامذہ میں امام مسلم، امام ابو عیسی ترمذی، امام نسائی، محمد بن یوسف، امام دارمی، ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن صالح بن محمد خبرہ، امام محمد نصر مروزی، امام ابو حاتم رازی، الامام ابراہیم الحربی، ابوبکر بن ابی عاصم، ابن خزیمہ ابو جعفر، محمد بن ابی حاتم، الوراق وغیرہ جیسے امام فن و محدثین شامل تھے۔ امام بخاری کے دل میں ایک ایسی کتاب لکھنے کی آرزوتھی جس میں تمام صحیح حدیثوں کو جمع کیا جائے۔ ان کے استاد امام الحاق بن راہویہ کی بھی یہی خواہش تھی۔امام بخاری نے صحیح بخاری کو سولہ سال میں مکمل کیا۔تین بار ترتیب و تدوین کی ان کے قول کے مطابق کسی حدیث کو الجامع الصحیح میں اس وقت شامل نہیں کیا گیا جب تک انہیں اس کی کامل صحت کا یقین نہ ہو گیا۔آپ جب تک غسل کر کے دو رکعت نفل نہ پڑھ لیتے صحیح بخاری کی احادیث مرتب نہ فرماتے آپ نے علت حدیث اور روآ حدیث کا حددرجہ خیال رکھا، اوریہ امام بخاری کا امت مسلمہ پر یہ عظیم احسان رہاہے۔
مدرس حدیث حضرت امام بخاریؒ
Jul 19, 2024