میرے امام حضرت حسینؓ 

شریعت مطہرہ میں مشکل وقت پر دو راستے بتائے جاتے ہیں۔ دونوں راستے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تجویز کردہ ہیں۔ ایک راہ کو راہ رخصت کہاجاتاہے اور دوسرے کو راہ عزیمت اگر حالات سازگار ہوں جبر وظلم اور کفر کی طاقتوں کا صفایا آسانی سے کیاجاسکتاہو تو ان حالات میں ہر چھوٹے بڑے اور ہرکلمہ گوپر اس ظلم کے خلاف میدان کا رزار میں نکل آنا فرض اور واجب ہوتاہے۔ اس وقت کسی شخص کیلئے سوائے کسی شرعی مجبوری کے کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوتا، لیکن جب حالات ناسازگار ہوں، اسلحہ وعسکری قوت ساتھ نہ ہو، باطل زیادہ مضبوط ، زیادہ منظم وقوی ترہو تو ایسے حالات میں شریعت نے امت مسلمہ کو دوراستے عطاکئے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ رخصت پر عمل کرے، گوشہ نشین ہوجائے۔ چپکے سے لعنت، ملامت کرے اور دل سے برا جانے لیکن مسلح تصادم وکشمکش کیلئے میدان میں نہ آئے۔ ہر دور میں اکثریت رخصت پر عمل کرتی رہی ہے اور راہ رخصت پر عمل کرنا شریعت میں نہ ہی ناجائز ہے نہ حرام اورنہ ہی اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہراضطراری حالت میں رخصت کی اجازت دے رکھی ہے۔اب اگر سب کے سب لوگ بلااسثناء ایسے حالات میں رخصت پر ہی عمل کرنا شروع کردیں تو پھر ظلم اور کفرکی طاغوتی طاقتوں کو روکناناممکن ہوجائے گا۔ اس لئے شریعت میں باوجود رخصت کی موجودگی کے کچھ لوگ راہ عزیمت پر بھی چل نکلتے ہیں۔ وہ حالات کی سازگاری اور ناسازی کو نہیں دیکھتے۔ وہ فوج اور لشکر کی بھاری اکثریت پر نظرنہیں ڈالتے، وہ مسلح کشمکش میں ناکامی اور کامیابی کے انجام پر توجہ نہیں دیتے۔
جس طرح ہر شخص راہ رخصت پر عمل نہیں کرسکتا اسی طرح راہ عزیمت پر چلنا بھی ہرکسی کے بس کی بات نہیں ہے۔حضرت امام حسینؓ نے یہ اقدام اس لئے کیا تھاکہ ان کے رگ وریشے میں حضرت علی بن ابی طالبؓ کا خون گردش کررہاتھا۔ آپ نے سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی گود میں پرورش پائی تھی، محبوب خداﷺ کے مبارک کندھوں پر سواری کی تھی اور حضورﷺ کی زبان مبارک کو چوسا تھا۔ آپ خانوادہ نبوت کے چشم وچراغ اور بنائے لاالہ تھے۔۔ اس لئے راہ عزیمت پر اس دور میں عمل کرناآپ کو ہی شایان تھا۔ پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ راہ رخصت پر عمل بھی اگرچہ راہ حق ہے اس راہ کو اپنانے والوں کو مطعون کرنا درست نہیں کہ انہیں یہ حق شریعت نے دیا ہے لیکن ایسے لوگوں کی راہ کو کوئی شخص اپنا اسوہ اور رہنما نہیں بنا بلکہ اہل محبت اور عشاق جن لوگوں کی راہ پر چلتے ہیں اور راہ حق میں اپنے گلے کٹواتے ہیں وہ قیامت تک کیلئے ایک اسوہ حیات دے جاتے ہیں۔
 وہ لوگ جنہوں نے حضرت امام حسینؓ کے اقدام کو ظاہری حالات کی ناسازی کی بناء پر معاذ اللہ، خروج اور بغاوت کا الزام دیاہے۔ وہ نہ تو دین کی روح سے واقف ہیں۔ شریعت اسلامیہ کے احیاء کے تقاضوں سے۔شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وقت یزید کا تخت پر بیٹھنا اسلام کی تاریخ کو کس رخ پر ڈال رہا تھا۔ اگر حضرت امام حسینؓ بھی رازار میں علم حق بلند کرنے کیلئے نہ نکلتے اور یہ بہتر تن بھی اپنے خون کا نذرانہ نہ دیتے تو آج اسلام کی جو متاع جمہوری قدروں، آزادی اظہار، جاہ وحشمت اور نفاذ شریعت کی مسلسل جدوجہد کی صورت میں نظرآرہی ہے اس کا کہیں بھی وجود نہ ہوتا۔اسلام کی پوری تاریخ اور امت مصطفویٰؓ حسین ابن علیؓ کے خون کے قطرات کی اور خانوادہ رسولﷺ کی اس عظیم قربانی کی مرہون منت ہے جس نے راہ رخصت کو چھوڑ کر راہ عزیمت کو اپنایا اور اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ مگر اس زمانے کی تاریکیوں اور اندھیروں کو ایسے اجالوں میں بدل دیا جس نے چودہ سو سال سے انسانیت کی راہیں روشن کررکھی ہیں۔ راہ رخصت پر چلنے والے ہزاروں کی موجودگی کے باوجود آج بھی دنیا جب بطور نمونہ کسی کا نام لیتی ہے وہ حسین ابن علی ؓ ہی کا نام لیتی ہے۔
حضرت امام حسینؓ مکہ معظمہ سے8ذی الحجہ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے، جب آپ روانہ ہونے لگے تو آپ کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ آپ کچھ دن اور مکہ گزار لیں لیکن حضرت امام حسینؓ کے سامنے اپنے والد گرامی کا یہ ارشاد تھاکہ مکہ مکرمہ کے حرم کا تقدس قریش کے ایک شخص کے سبب سے پامال ہوگا اور اس ایک شخص کے سبب سے مکہ میں خون بہے گا۔ آپ نے فرمایا کہ ممکن ہے مکہ میں یزیدی فوج میری گرفتاری کا اقدام کرے اور ہمارے حامی ہمارے دفاع میں تلواریں اٹھالیں۔ اس طرح میرے سبب سے حرم مکہ میں خون بہے۔ میں نہیں چاہتاکہ اپنے والدکے ارشاد کامصداق میں بنوں۔
خط میں لکھا تھا کہ
میں خدا کے نام پر آپ سے التجا کرتاہوں کہ میر ایہ خط دیکھتے ہی آپ واپس لوٹ آئیں، جو سفر آپ نے اختیارکیاہے اس میں مجھے آپ کی ہلاکت اور آپ کے اہل بیت کی بربادی کا خوف ہے۔ آج اگر آپ ہلا ک ہوگئے تو اسلام کا نور بجھ جائے گا، آپ ہدایت یافتوں کے راہنما اور اہل ایمان کی امید ہیں آپ سفر میں عجلت نہ کریں اس خط کے پیچھے میں خود آرہاہوں۔والسلام
حضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے اپنے بچوں کے ہاتھ یہ خط روانہ کرکے خود امیر مکہ عمروبن سعید سے ملاقات کی اور اسے کہاکہ حسینؓ کو ایک خط بھیج دیں جس میں انہیں امان دینے اور نیکی واحسان کرنے کا وعدہ ہو۔ نیز خط میں انہیں واپس آنے کی درخواست کی گئی ہے ممکن ہے اس طرح وہ مطمئن ہوکر واپس آجائیں۔عمرو بن سعید نے کہاکہ جو کچھ آپ لکھنا چاہتے ہیں وہ میری طرف سے لکھ لائیں میں اس پر مہر لگادوں گا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے جو لکھنا چاہا عمرو بن سعید کی طرف سے لکھ دیا۔ اس نے اس پر اپنی مہرثبت کردی۔آپ نے اس سے مزید کہاکہ میرے ساتھ کسی آدمی کو امان کے طور پر بھیج دو۔ اس پر عمرو بن سعید نے اپنے بھائی یحییٰ کو آپ کے ہمراہ روانہ کردیا۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ اور یحییٰ خط لے کر روانہ ہوگئے حتیٰ کہ حضرت امام حسینؓ سے جاملے اور انہیں یہ خط پڑھ کر سنایا(جاری)

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...