افغان عبوری حکومت اور ٹی ٹی پی گٹھ جوڑ ! 

Jul 19, 2024

خالد بیگ

 پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کارروائیوں کو سمجھنے کیلئے اگر چند سال پیچھے کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یکم جولائی 2021ء کی شب امریکی فوج کا کابل سے باہر بگرام ایئربیس میں اندھیرا کرنے کے بعد اچانک پراسرار انداز سے افغان حکومت کو اطلاع دئیے بغیر وہاں سے رخصت ہونا اور 15اگست 2021ء کو افغان طالبان کا بغیر گولی چلائے کابل پر قبضہ جیسے دونوں واقعات پوری دنیا کے لئے حیران کن تھے۔بگرام ایئربیس سے ہمہ وقت رابطہ میں رہنے والے افغان نیشنل آرمی کے افسران بھی اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ امریکی فوج افغانستان سے جاچکی ہے۔ انہیں یہ خبر ایک چرواہے نے دی جو بگرام ایئربیس کے قریب اپنی بھیڑ بکریاں چرانے میں مصروف تھا۔ اس کی نظر امریکی جنگی چھائونی اور دو دہائیوں تک پورے افغانستان پر فضائی حملوں کے لئے استعمال ہونے کے علاوہ ہمہ وقت مصروف رہنے والے ایئربیس کے سناٹے پرپڑی جس نے اسے پریشان کر دیا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے ایئربیس کے مرکزی دروازے کے اوپر قائم بنکر نما مچانوں کا جائزہ لیا تو اسے وہاں کوئی ایک بھی امریکی سکیورٹی گارڈ پہرہ دیتے دکھائی نہیں دیا۔ اس وقت صبح کا اجالا پھوٹ رہا تھا۔ اس نے فوری طور پر کابل میں ایک افغان فوجی افسر کواس صورت حال سے آگاہ کیا۔ پہلے تو اس بات کو افغان فوجیوں نے مذاق سمجھا۔ تاہم بگرام ایئر بیس پر بار بار فون کرنے کے باوجود رابطے میں ناکامی سے پریشان ہوکر کابل میں افغان فوج کے کمانڈر کو اس کی اطلاع دی گئی تو اس کے حکم پر دو جیپوں میں سوار افغان فوج کے کچھ افسران و جوان فوری طور پر بگرام ایئربیس پہنچے۔موقع پر ایئربیس کا مرکزی دروازہ بند ضرور تھا جو تھوڑا سا دبائو ڈالنے پر کھلتا چلا گیا۔ اندر امریکیوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا البتہ سینکڑوں کی تعداد میں جیپیں ، فوجی ٹرک، بکتر بند گاڑیاں، ہیلی کاپٹر اور چند جنگی جہاز وہاں موجود تھے۔
 افغان فوجی اندر داخل ہونے کے بجائے واپس پلٹے تو کابل میں افغان نیشنل آرمی میں ایمرجنسی کی سی کیفیت تھی۔ وہاں خبر گرم تھی کہ طالبان افغانستان کے مختلف صوبوں میں افغان نیشنل آرمی کو شکست دے کر اپنا قبضہ مستحکم کر چکے ہیں۔ بگرام ایئر بیس چھوڑنے کے بعد امریکیوں نے افغانستان چھوڑنے کا باضابطہ اعلان کرنے کے ساتھ ہی کابل سے اپنے حامی اور 20 برسوں تک امریکی و نیٹو افواج کے لئے خدمات سر انجام دینے والے افغانیوں اور ان کے اہل خانہ کو کابل سے نکالنے کیلئے فضائی مشن شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔یہ خبر نشر ہوتے ہی ہزاروں افغان خاندان کابل ایئرپورٹ پر امڈ آئے۔ اس کشمکش میں 15اگست 2021ء کا وہ دن آن پہنچا جب طالبان کابل میں داخل ہوئے اور انہیں اسلحہ کے زور پر روکنے یا مزاحمت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ 
 کابل پر قبضہ مستحکم کرنے کے بعد وہاں قائم ہونے والی افغان عبوری حکومت نے بین الاقوامی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں کو جب بگرام ایئربیس کا دورہ کرایا تو سب کی آنکھیں یہ دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں امریکی ساختہ جدید ہتھیاروں کا انبار موجود تھا۔لاکھوں کی تعداد میں یہ سب خطرناک ہتھیار لکڑی کے کریٹوں میں بند تھے جن کی مالیت سی این این کی رپورٹ کے مطابق سات ارب ڈالر سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ تخمینہ ان چھوٹے خود کار جدید ہتھیاروں کی قیمت کے بارے میں لگایا گیاتھا جو اس وقت تک صرف امریکی فوج کے زیراستعمال تھے۔بگرام ایئربیس پر چھوڑے گئے اس جدید اسلحہ کا آج پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ایک ایسا سوال ہے جس کا امریکہ اور افغان عبوری حکومت کے پاس نہ تو اگست 2021ء میں کوئی جواب تھا اور نہ ہی وہ اب اس حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب دینے کو تیار ہیں۔ جبکہ اگست 2021ء میں پاکستان میں عوام افغانستان پر طالبان کے قبضہ پر خوشیوں کے شادیانے بجارہے تھے۔ اس وقت ان کا خوش ہونا بنتا بھی تھا کیونکہ پاکستانیوں نے گزشتہ 20برسوں میں افغانستان کی آزادی کیلئے طالبان کی طرف سے لڑی جانے والی مزاحمتی جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔ 12اکتوبر 2001ء سے 15اگست 2021ء تک 52ہزار طالبان امریکی اور نیٹو افواج سے لڑتے ہوئے جان سے گئے جبکہ اس عرصہ میں پاکستان پر براستہ افغانستان مسلط کی گئی دہشت گردی میں پاک فوج کے ہزاروں افسران جوانوں سمیت 80ہزار سے زیادہ پاکستانی اپنی جان کی قربانی دے چکے تھے اور قربانیوں کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
 پاکستان میں یہ بحث زور پکڑتی جارہی ہے کہ کالعدم دہشت گردجماعت ٹی ٹی پی کو افغان عبوری حکومت کی پاکستان کے خلاف مکمل حمایت حاصل ہے۔ جس میں بھارت کا پوشیدہ کردار بھی اب منظرِ عام پر آنے لگا ہے۔جس کی تصدیق اگست 2021ء میں الجزیرہ ٹی وی کی اس رپورٹ سے ہوتی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ کابل پر طالبان کے قبضہ کے فوری بعد بھارت سے ایک خصوصی وفد قطر میں طالبان کے ہیڈ کوارٹر دوحہ پہنچا جہاں بھارت اور طالبان کے درمیان تفصیلی بات چیت ہوئی۔ طالبان نے بھارت کو یقین دہانی کرائی کہ افغانستان کی زمین بھارتی مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔البتہ مذکورہ رپورٹ میں اس حوالے سے کوئی ذکر نہیں تھا کہ کیا بھارت کو افغانستا ن میں پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کیلئے زمین دستیاب ہوگی؟ اور اب جس انداز سے دہشت گرد جدید امریکی اسلحہ کے ساتھ، جس میں نائٹ ویڑن ہتھیار شامل ہیں، پاکستان میں حملہ آور ہیں۔یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کے خلاف اتحاد کر چکی ہیں اور ان قوتوں کو افغان عبوری حکومت نے افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کیلئے ہرطرح کی سہولت فراہم کررکھی ہے۔ جس کا تدارک پاکستان میں قومی سطح پر باہمی اتحاد اور ہر قیمت پر پاکستان سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم سے ہی ممکن ہے۔

مزیدخبریں