وزیر ِ قانون کی حیرت 

 سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کو سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریلیف سنی اتحاد کونسل مانگنے گئی تھی لیکن عدالت نے پی ٹی آئی کو دے دیا۔ انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح لوگ عدالت کے ان فیصلوں پر حیران ہوں تھے کہ ن لیگی خاندان کی سزائیں کیسے ختم ہوگئیں۔ دنیا نے پہلی دفعہ ایسا ہوتے دیکھا تھا جیسے پورا مک مکا کیا گیا ہو کہ آپ پوری آب و تاب سے وطن واپس تشریف لائیے ، حکومت سنبھالیے اور جو جو حکم آئی ایم ایف کی طرف سے معاشی اصلاحات کے نام پر شرائط کی صورت دیا جاتا ہے اس کی بے چون و چراں تعمیل کرتے جائیے۔ آپ کے مقدمات اور سزائیں اڑنتو چھو ہوتی جائیں گی۔ یقیناً اس وقت عزت مآب وزیر قانون کی حیرت پل پرزے سمیٹ رہی ہوگی جب ملک میں قانون اور آفرین کی بالادستی کے یہ معجزات نظر آ رہے تھے۔ 
 وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی حیرت ایک لافانی حیرت کا حصہ ہے جو ایسے حکمرانوں کے اقتدار میں آجانے سے پوری دنیا کو ہوئی جن کو الیکشن میں ووٹ نہیں پڑے۔ کسی سادہ ، پرجوش اور راست مزاج وکیل کا حکمران کلاس میں شامل ہو کر مسلسل شاباش حاصل کرنا معمولی کام نہیں ہوتا۔ یہ غیر معمولی کام اعظم نذیر تارڑ نے کر دکھایا ہے اور وہ بھی کسی کو حیرانی میں ڈالے بغیر کہ اس میں بقول فرائیڈ اِڈ ، ایگو اور سپر ایگو سب کچھ دائو پر لگتا ہے۔ حالانکہ موجودہ فیصلے نے تو ہرگز ہرگز حیران نہیں کیا کہ سب کو پتہ ہے جب عوام پر ظلم و ستم کے تمام پہاڑ توڑے جا چکے ہونگے تو فلم الٹی چل پڑے گی۔ کروڑوں عوام جن کے نزدیک عدالتی فیصلے قانونی موشگافیوں کے رہین ِ منت نہیں ہوتے انہیں اس فیصلے سے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ یہ سیٹیں پی ٹی آئی کی تھیں اور انہیں واپس مل گئیں۔ سیٹیں تو اور بھی بہت سی ہیں پی ٹی آئی کی۔ اگر اب اس ملک میں پچاس فیصد بھی الیکشن شفاف ہوگئے تو نہ بجیں گی اسملبیاں اور نہ کھڑکیں گے سینیٹر۔
ہم نے تو برسوں پہلے سنا تھا کہ اب جو کچھ ہوگا عدالتوں کے ذریعے ہی ہوگا۔  اب صاف لگ رہا ہے کہ ایسا ہی ہوگا کہ جب موجودہ حکومت مشکل فیصلوں کے نام پر وہ تمام ظلم ڈھا چکے گی جس کے لیے یہ لائی گئی تھی اور حکمرانوں کے تمام گناہ معاف کردیے گئے تھے۔ یہ جب انتہا برپا کریں گے تو اس سے پہلے کہ عوام بلبلاتے ہوئے سڑکوں پر نکلیں اور نو گو ایریاز کا رخ کریں، حکومت کے غبارے سے ہوا نکال دی جائے گی۔ پچھلے چھہتر سالوں سے یہی کھیل جاری ہے۔ کئی کئی دفعہ کئی کئی وزیر قانون حیران رہ جاتے رہے۔ ایسے وزیروں کی تو حیرت ساری زندگی نہیں جاتی جو عوام کے خلاف مشکل فیصلے کرنے والی حکومتوں میں بغیر الیکشن لڑے آدھمکتے ہیں۔ یعنی سیاسی نظام کا حصہ بننے کی بجائے ماورائے سیاست نظام کے شہ دروازے سے حکومت میں آتے ہیں۔ 
 سنا ہے پاکستان ریلوے ، محکمے کی کارکردگی کے لیے کچھ ٹرینیں بیچنے جا رہا ہے۔ یہ بھی سناہے ہے کہ پی آئی اے کے اثاثوں سے لیکر بچے کچھے خلاصوں تک کو ملکی خزانے سے بوجھ اتارنے کے لیے رفتہ رفتہ خلاص کیا جائے گا۔ حالانکہ کچھ غور کیا جائے تو خزانے پہ بوجھ کچھ اور ہے جن میں کچھ حیرت زدہ وزراء بھی شامل ہوجاتے ہیں۔  جس ملک میں وزیر اعظم بینکوں سے آ جاتے ہوں وہاں اگر کوئی کمیٹیاں ڈالنے والا مشیر اعظم آجائو تو یقیناً یہ ایک روٹین کی بات ہوگی۔ یہ بدنصیب ملک روزانہ کی بنیاد پر اتنے صدمے سہتا رہا ہے کہ اب بڑے سے بڑا صدمہ بھی آجائو تو اسے کبھی حیرت نہیں ہوتی۔ساری دنیا کو اب یہ بات سمجھ آچکی ہوئی ہے کہ پاکستان دراصل ایک مخصوص حیرت زدہ طبقے کے قبضے میں ہے اور اقتدار جیسے ہی ان جیسے کسی دوسرے حیرت زدہ طبقے کی طرف رجوع کرتا ہے تو ان کی حیرانی بڑھنے لگتی ہے۔ 
 کسی انسان کے لیے اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ ایک ایسے سسٹم کا حصہ بننے پر خوش ہو جس کے پرزوں پر کروڑوں لوگوں کے زخموں سے رستا ہوا خون لگا ہو اور خوابوں کی کرچیاں چپکی ہوں۔ 
ایک اور وزیر محترم فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتائج بھیانک ہوسکتے ہیں۔ خواجہ آصف نے یہ بالکل درست فرمایا ہے۔ بھٹو کی پھانسی سے لیکر موجودہ حکمرانوں کے کیسز کے خاتمے تک بیشمار فیصلوں کے بھیانک نتائج پاکستان اور پاکستان کے عوام بھگت چکے ہیں۔ لیکن بجلی کے بلوں اور پٹرول کی قیمت میں اضافے کے فیصلے سے زیادہ بھیانک نتائج پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیکھے گئے۔ وزیر محترم کی ذات شریف پر چونکہ اس فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑا اس لیے ان کے لیے یہ نارمل سا فیصلہ تھا۔ کروڑوں لوگوں کی آہ و بکا اور ماتم ان کے نزدیک کوئی ویلیو ہی نہیں رکھتا تو چاہے کوئی مرے یا جیئے۔ لیکن جس فیصلے سے معجزاتی حکومت کا اقتدار خطرے میں پڑے ان کے نزدیک بھیانک صرف وہی ہے۔ یہ وہی اصحاب  ہیں کہ جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو حکومت میں آنے کے دلفریب خواب دیکھتے ہیں اور جب حکومت سے جانے والے ہوتے ہیں تو دوسروں کو بھیانک نتائج سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اقتدار و اختیار بذات خود ایسا بھیانک خواب ہے جس کے نتائج اس کے خاتمے کے بعد نظر آتے ہیں۔ اب کی بار عوام کی جتنی بدعائیں موجودہ حکمرانوں نے لے لی ہیں، پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے تو یہ بذات خود ایک حیران کر دینے والی بات ہے۔ 
بقول شاعر۔۔۔
اسے حیرت نہیں ہوتی 
 مرے بچے بلکتے ہیں 
 میرے ماں باپ بیماری کے چنگل میں
سسکتے ہیں 
 کبھی ہم بھوک سے ، غربت کی شدت سے 
کبھی مجبوری و بیچارگی کے دکھ کی شدت سے 
تڑپتے ہیں 
اسے حیرت نہیں ہوتی۔

ای پیپر دی نیشن