معزز قارئین !۔ یوں تو، 10 محرم اُلحرام کو، دُنیا بھر کے مسلمانوں میں ، سیّد اُلشہداء حضرت اِمام حسینؓ اور اُن کے پیر و کار شُہدائے کربلاؓ کے بارے اپنے اپنے انداز میں جوش و خروش اور عقیدت و احترام سے تقریبات کا اختتام ہوگیا ہے لیکن، حسینیت ؓ اور یزیدیت کی جنگ تو، سالہا سال جاری رہتی ہے لیکن، اہلِ بیت ؓخصوصاً حسینیتؓ سے عقیدت و احترام کے باعث دُنیا بھر کے مسلمانوں میں اہل بیتؓ کی تقریبات کا اہتمام ہوتا رہتا ہے ۔ اُسی جذبے سے مَیں آج 10 محرم اُلحرام (بروز بدھ ) کے بعد آج 12 محرم اُلحرام ( بروز جمعتہ اُلمبارک ) کو، یزیدیت کے خلاف ، حضرت بی بی زینبؓ کی جدوجہد کو یاد کر رہا ہُوں ۔ پیغمبرانسانیت صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی نواسی۔ ’’باب اُلعلم ‘‘ حضرت علی مرتضیٰؓ اور ’’خاتونِ جنت ‘‘ حضرت فاطمۃ اُلزہرؓا کی بیٹی اور ہمشیرۂ محترمہ حسنینِ کریمینؓ ، سیّدہ زینبؓ کا یوم وِصال عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ۔
معزز قارئین !۔ حضرت زینبؓ کو عقیلۂ بنی ہاشم کہا جاتا تھا۔ اُمّ ِ کلثوم و اُم اُلحسن آپؓکی کُنیت تھی۔ صدیقہ صغریٰ آپؓکا لقب تھا ۔ مُحدّثین حضرت علی مرتضیٰؓ سے روایت کرتے ہیں کہ، آپ ؓاُنہیں ’’ ابی زنیب ؓ ‘‘ سے یاد کرتے تھے ۔ ولادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے آپؓ کا نام زینبؓ رکھا تھا ۔حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے بڑے بھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے چچیرے بھائی حضرت جعفر طیارؓ کے فرزند حضرت عبداللہؓ سے بی بی زینبؓ کی شادی ہُوئی۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ عرب کے مشہور جواد و کریم اور حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے جانثار تھے ۔ امام حسین ؓاپنی بڑی بہن کی بہت عزّت کرتے تھے جب، سیّدہ زینبؓ اُن کے پاس تشریف لاتیں تو آپؓ کھڑے ہو جاتے اور اُنہیں اپنی جگہ بٹھاتے تھے !‘‘ ۔
’’ بعد از سانحہ کربلا ! ‘‘
حضرت امام حسینؓ اور دوسرے عزیز و اکارب اور پیرو کاروں کی شہادت کے بعد ، اسلام کو زندہ رکھنے میں حضرت بی بی زینبؓ کا کردار نا قابلِ فراموش ہے ۔ مدینہ سے کربلا اور کربلا سے شام تک ، شُہداء کی بیوائوں اور یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر سیّدہ زینبؓ کا سفر کوفہ اور شام کے بازاروں میں اُن کی تقریریں ، یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خطبے اور برجستہ جوابات کے بارے موّرخِین لِکھتے ہیں کہ ۔ ’’ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ’’ گویا حضرت علی مرتضیٰؓ خُطبہ دے رہے ہیں ‘‘۔
’ ’ علاّمہ اقبال! ‘‘
عاشقِ رسولؐ ، علاّمہ اقبال نے اپنے فارسی شعر میں کہا کہ…
حدیث ِعشق ، دو باب اَست ، کربلا و دمِشق !
یکے حُسینؓ رقم کرد ، دیگرے زینبؓ!
یعنی۔ ’’عشق کی حدیث ( ارشاداتِ رسول ؐ ) کے دو باب ہیں ۔ ایک نواسۂ رسولؐ اور جگر گوشۂ بتول حضرت امام حسین ؓ نے میدانِ کربلا میں لکھا اور دوسرا دمشق ( دربارِ یزید ) میں انتہائی جُرأت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے سیّدہ زینب ؓ نے ‘‘۔
’’دربار یزید میں خطبہ ! ‘‘
معزز قارئین !۔ واقعہ کربلا کے بعد ، دمشق میں ، یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطبہ بوقت یاد گار ہے ، یزید سے مخاطب ہو کر آپؓ نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’ اے یزید اگر چہ حادثات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا کی قسم، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اس کے سوا کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی۔ اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کر سکتا ہے کر لے۔ ہم اہل بیتؓ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے دشمنی کے لیے تو جتنی بھی سازشیں کر سکتا ہے کر لے لیکن خدا کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اور تاریخ سے نہیں مٹا سکتا اور چراغ وحی کو نہیں بجھا سکتا تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھوسکتا، خدا کی نفرین و لعنت ہو ظالموں اور ستمگروں پر!‘‘۔
’’منقبت / مناقِب ! ‘‘
معزز قارئین !۔عربی زبان میں منقبت ؔ کے معنی ہیں ’’ ہُنر ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم ، اصحابہ کبار ؓ ، اہلِ بیت ؓ اور اولیائے کرام کی حمد و ثناء ‘‘ اور منقبت کی جمع ہے ’’ مناقِب ‘‘۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ’’ مجھے 1956ء سے (اگرچہ کچھ زیادہ نہیں ) لیکن ، مجھے (اُردو ، پنجابی اور ہندی میں بھی ) پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم ،اہل بیت ؓ اور اپنے جدّی پشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز ، نائب رسول ؐ فی الہند ، حضرت معین اُلدّین چشتی سمیت کئی اولیائے کرام کی ’’ مناقِب ‘‘ لکھنے کا شرف حاصل ہُوا ہے ۔ کئی سال ہُوئے مَیں نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بھی منقبت لکھی تھی جو، مَیں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہُوں …
علیؓ کی بیٹی ؓ،سلام تُم پر!
خُدا کی رحمت ، مَدام ، تُم پر!
رِدائے خَیراُالاَنامؐ ، تُم پر!
بتُولؓ کا، نُورِ تام، تُم پر!
علیؓ کی بیٹی ؓ،سلام تُم پر!
قبیلہء پَنج تنؓ کی، عظمت!
اے نیک خُو ! بِنتِ بابِ حِکمتؓ!
ثناگری، صُبح و شام، تُم پر!
علیؓ کی بیٹی ؓ،سلام تُم پر!
جہاں کو ، پیغام ِ حقّ سُنایا!
حُسینَیِتؓ کا ، عَلم اُٹھایا!
ہوں کیوں نہ ، نازاں اِمام ؓ تُم پر!
علیؓ کی بیٹی ؓ،سلام تُم پر!
مُلوکِیت ، جیسے غم کدہ، تھی!
یزِیدیت ، زَ لزلہ زدہ ، تھی!
ہے ختم، زورِ کلام ، تُم پر!
علیؓ کی بیٹی ؓ،سلام تُم پر!
وفا کے پَیکر ، شُمار ہوتے!
وہاں ، جو ہوتے ، نِثار ہوتے!
نبیؐ کے سارے ، غُلام تُم پر!
علیؓ کی بیٹی ؓ،سلام تُم پر!
اثرؔ جو پایا ، اشارۂ ربّ!
تو رکھّا ، ناناؐ نے ، نام زَینب!
ہے خُوب سجتا ہے ، نام تُم پر!
علیؓ کی بیٹی ؓ،سلام تُم پر!
’’علی ؓ کی بیٹی ؓسلام تُم پر !‘‘
Jul 19, 2024