جمعۃ المبارک ، 12  محرم الحرام   ،    1446ھ19 جولائی  2024ء

 سرکاری ہسپتالوں کی ادویات چوری کر کے فروخت کرنے والا گروہ گرفتار۔
یہ نیک کام لاہور کے چند ہسپتالوں میں کرنے والے یہ بے رحم سرکاری ملازم  اس طرح شاید مارکیٹ میں ادویات کی قلت دور کرنے کی احسن کوشش کر رہے ہوں گے تاکہ مریضوں کے لواحقین کو اگر ہسپتال میں مفت نہیں ملتی چلو میڈیکل سٹورز سے تو یہ ادویات آسانی سے دستیاب ہوں۔ 7 افراد پر مشتمل یہ بدبخت گروہ جنرل ہسپتال، نواز شریف ہسپتال اور چلڈرن ہسپتال میں اپنی مکروہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔ یہ تو شکر ہے ان ہسپتالوں میں پتہ چل گیا ورنہ نجانے اور کس کس ہسپتال میں انہی کے بھائی  بند اور کیا کیا چوری کر کے مارکیٹ میں فروخت کرتے ہوں گے۔ تجارت کرنا اچھا کام ہے۔ مگر یوں تجارت کے نام پر چوری کر کے مسروقہ سامان فروخت کرنا تو جرم کہلاتا ہے۔ سمگلر بھی تو یہی کہتے ہیں کہ وہ چوری چھپے سامان لا کے کونسا گناہ کرتے ہیں۔ یہ کاروبار ہے ہم بھی تو جان خطرے میں ڈال کر مال کا رسک لیتے ہیں۔ اس طرح کام کرنا غلط نہیں۔ شاید یہ چور بھی اپنے بڑے  سمگلر بھائیوں کی ہی لاجک سے متاثر ہوتے ہونگے۔ چاہے غریب مریض سرکاری ہسپتالوں میں ملنے والی مفت ادویات نہ ملنے سے مر جائیں۔ ان ظالموں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلے ہی کون سی مہنگی ادویات مفت میسر ہیں۔ اب جو یہ عام ادویات دستیاب ہیں ان پر بھی ہاتھ صاف کرنے والے ان چوروں کے تو ہاتھ کاٹ دینے چاہئیں جن کو مریضوں پر بھی ترس نہیں آتا، نہ غریبوں پر۔ 
٭٭٭٭٭
بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں  پر معذور افراد  کی نقل اتارنے کا مقدمہ
اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر پورے بھارت میں معذور افراد ، سول سوسائٹی اور عام لوگوں نے بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کو ایسا کر کے کسی کا مذاق اڑانے کا کوئی حق نہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک ایک کر کے یہ کھلاڑی کوئی لنگڑا، کوئی لولا، کوئی اندھا کوئی ٹنڈا بن کر معذوروں کی نقل اتارتا واک کر رہا ہے۔ شاید ٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیتنے والے کھلاڑیوں نے اس طرح کی اداکاری کر کے اپنے ہر فن مولا ہونے کا ثبوت دیا ہے اور اپنے ساتھ عوام کے ’’منورنجن‘‘ کے لیے یہ نوٹنکی والا کام کیا ہے جو اب ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ عوام کے ساتھ اپنی خوشیاں شیئر کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں مگر یہ بھونڈا مذاق ہرگز زیب نہیں دیتا۔ اس سے بہت سے حساس لوگوں اور معذوروں کو تکلیف ہوئی ہے کہ ان کا تمسخر اڑایا گیا ہے۔ ویسے اداکاری سب نے کمال کی کی ہے۔ اگر وہ عملی طور پر کسی بڑی سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر اپنا گیٹ اپ بدل کر ایسی اداکاری کریں تو کافی لوگوں کو متاثر کر کے اچھی خاصی دیہاڑی لگا سکتے ہیں۔ ویسے یہ مشورہ دیا کس نے تھا ایکٹنگ کرنے کا۔ پہلے اس کو تو پکڑیں۔ اس کی خبر لیں جس کی وجہ سے کھلاڑیوں  پرمقدمہ ہو گیا ہے۔
٭٭٭٭٭
2080ء تک دنیا کے 4 ہزار شہروں میں درجہ حرارت بڑھے گا۔ امریکی ماہرین
ان  ماہرین ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ اگر ماحولیاتی بتدیلیوں کے مقابلے کی پلاننگ نہ کی گئی تو آئندہ 50برسوں میں گرمی کی شدید لہر دنیا بھر کے 4 ہزار شہروں کو جھلسا کر رکھ دے گی۔ ان ممالک میں پاکستان کے کئی شہر بھی شامل ہیں جن میں لاہور، کراچی ، اسلام آباد، ملتان ، فیصل آباد ،پنڈی، پشاور اور کوئٹہ بھی شامل ہیں۔ یہ ایک خطرناک وارننگ ہے کیوں کہ اس برس سب نے دیکھا کہ کس طرح آسمان سے آگ برس رہی ہے اور درجہ حرارت 50 کے اردگرد ، اوپر نیچے ہی گھومتا رہا۔ ہیٹ سٹروک سے دنیا بھر میں پاکستان سمیت سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ اب یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے باشعور لوگ شجرکاری کی مہم چلا رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 2 ارب درختوں کی ضرورت ہے تاکہ ماحول کا تناسب برقرار رہے ورنہ ہم تندور میں جھلستے رہیں گے۔ خدا جانے سابق حکومت کے وہ ٹریلین درخت کہاں گئے۔ اگر وہ لگ چکے ہوتے تو آج کم از کم یہ شدید گرمی کی لہر میں کچھ کمی تو آتی۔ مگر وہ بھی ہر سال کی طرح سرکاری مہم میں لاکھوں درخت لگانے والے کاغذی منصوبوں کی طرح لگتا ہے کاغذات میں ہی رہ گیا اور ایک اچھا خاصہ منصوبہ بیڈگورننس کی وجہ سے ناکام ہوا۔ اوپر سے آزاد کشمیر، خیبر پی کے میں جس بے دردی سے ٹمبر مافیا درخت کاٹ رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر ماحول بہتر نہ ہوا توسب سے پہلے کراچی متاثر ہو گا جہاں سردیاں بھی گرم ہوں گی اور بارش یا تو کم ہو گی یا بہت زیادہ۔ 
٭٭٭٭٭
یوم عاشور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے لنگر اور سبیل کا اہتمام 
کام تو یہ بہت اچھا ہے مگر جسطرح اس کو تشہیری مہم بنایا گیا اس پر لوگوں خاص طور پر مخالفین نے احتجاج کیا ہے۔ ان سبیلوں میں لنگر کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ کھانے کے پیکٹ اور شربت عاشورہ کے جلوس کے شرکا میں تقسیم کیا گیا۔ ان سبیلوں پر جو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں اس پر کافی شور ہو رہا ہے کہ ایک نیک کام کو اس طرح ذاتی تشہیر کا ذریعہ بنا کر وزیر اعلیٰ نے ثواب کم کر دیا ہے۔ ملک بھر میں ہزاروں افراد بڑی بڑی سبیلیں لگاتے ہیں۔ لنگر تقسیم ہوتا ہے مگر شاذ ہی کسی نے اپنے نام یا تصویر سے کوئی کام لیا ہو یہ سب فی سبیل اللہ کیا جاتا ہے۔ بس اس ایک بات سے ہٹ کر یہ ایک اچھا اقدام تھا جو قابل تعریف ہے۔ امید ہے آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اب شدید گرمی میں اگر سرکاری طور پر جن علاقوں میں پانی کی قلت ہے وہاں آب رسانی کا سلسلہ شروع کیا جائے اور شہروں میں قائم واٹر پوائنٹس پر صاف پانی کی فراہمی بہتر بنائی جائے جگہ جگہ فی سبیل اللہ پانی کے ٹینکروں سے سڑکوں پر سفر کرنے والوں کو پانی دیا جائے تو اس کا بھی بہت اثر ہو گا اور لوگوں کے دلوں میں حکومت کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو گا۔  
٭٭٭٭٭


    

ای پیپر دی نیشن