یزیدیوں کا انجام

بعض اوقات انسان دنیا کی نعمتوں اور مقام و منصب کی لالچ میں آ کر اپنی دنیا و آخرت دونوں تباہ کر لیتا ہے اس کے ہاتھ میں دنیا بھی نہیں رہتی اور آخرت میں بھی اسے سخت عذاب ملے گا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ ( جامع صغیر)۔
سیدہ زینب ؓ نے جب یزید کے دربار میں خطبہ دیا تو کہا ’’حسین کے خون سے تم نے جس سلطنت کو پانی دیا ہے اس پر تیری اولاد بھی تھوکے گی‘‘۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ انتالیس برس کی عمر میں یزید ہاتھ پائوں مارتا اور سر پٹختا درد قولنج میں اس طرح مبتلا ہوا کہ اگر ایک قطرہ پانی کا بھی حلق میں جاتا تو تیر بن کر اترتا۔ یزید بھوکا پیاسا تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ 
اس کے بعد اس کے بیٹے نے بھی جلد ہی حکمرانی کو ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد مختار ثقفی نے کوفہ کا اقتدار سنبھالا اور حکم دیا کہ قاتلان اہل بیت کو پکڑ کر لائو تا کہ امام حسین ؓ اور اس کے ساتھیوں کا بدلہ لیا جائے۔ جب سب کو پکڑ کر لایا گیا تو مختار نے غصے سے کہا تما م کوفیو ں کو بھی مار دوں پھر بھی امام حسینؓ کے خون کے ایک قطرے کی قیمت ادا نہیں ہو سکتی۔ 
عمرو سعد کو لایا گیا۔ اس نے ساری ذمہ داری یزید پر ڈال دی۔ عمرو اور اس کے دونوں بیٹوں کو مار دیا گیا۔ شمر کو پکڑ کر لایا گیا۔اس نے پیاس کی شدت میں پانی مانگا لیکن اسے کہا گیا وہ قبضہ فرات یاد کر جب تو نے اہل بیعت تک پانی نہیں پہنچنے دیا۔ پھر اس کی گردن بھی اڑا دی گئی۔ جس نے شہزادہ علی اصغر کو تیر مارا تھا اس پر تیروں کی بارش کر دی گئی۔ خولی کی بیوی نے اسے پکڑوایا اس کے دونوں ہاتھ اور پائوں کاٹ دیے گئے اور اس کا دھڑ پھینک دیا گیا۔ ابن زیاد کو بھی عبرت ناک موت دی گئی۔ تقریبا مختار ثقفی نے چھ ہزار کوفیوں کو قتل کیا۔ سنان بن انس نخعی نے ایک بارلوگوں میں کہا کہ میں نے امام حسینؓ کو قتل کیا ہے۔جب وہ گھر گیا اچانک اس کی زبان بند ہو گئی عقل ختم ہو گئی جہاں کھاتا تھا وہیں پیشاب و پاخانہ کر دیتا اور اسی حالت میں مر گیا۔ (طبقات ابن سعد )۔
عمارہ بن عمیر سے مروی ہے جب عبید اللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لا کر رکھے گئے تو ان کے پاس لوگ کہہ رہے تھے آ گیا آگیا۔ اچانک دیکھا ایک سانپ آیا وہ سب کے سروں کے درمیان سے نکلتا ہوا ابن زیاد کے نتھنوں میں میں داخل ہو گیا تھوڑی دیر بعد چلا گیا۔ پھر شور ہوا آگیا آگیا۔ دو یا تین مرتبہ اسی طرح ہوا۔ (ترمذی باب مناقب امام حسن و حسینؓ)۔

ای پیپر دی نیشن